دمشق نبی اکرم ؐ کے وصال کے تین سال بعد 635ء میں فتح ہوا’ شہر میں دنیا کی قدیم ترین شاہراہ ”صراط مستقیم” کے قریب زمین کا ایک مقدس قطعہ تھا’ یہ قطعہ اراضی زمانہ قدیم سے متبرک چلا آ رہا تھا’ رومیوں نے اپنے دور میں اس جگہ خوبصورت معبد بنایا’ یہ وہاں صدیوں تک عبادت کرتے رہے’ عیسائیوں کا دور آیا تو یہ جگہ ان کے قبضے میں چلی گئی’ پادریوں کا خیال تھا حضرت عیسیٰ ؑ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ آسمان سے اس مقام پر اتریں گے’ پادریوں نے مقام کی نشاندہی کے لیے وہاں ایک چبوترا بنا دیا ‘شام جب مسلمانوں کے قبضے میں آ یا تو یہ بھی اس مقام پر عبادت کرنے لگے یوں یہ جگہ تمام مذاہب کے لیے مقدس ہو گئی۔
خلیفہ ولید بن عبدالملک کا دور آیا تو وہاں دنیا کی عظیم ترین مسجد بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن پادری یہ جگہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں تھے’ مذاکرات ہوئے’ بادشاہ نے دمشق میں شاندار چرچ اور زمینوں کے بدلے پادریوں کو راضی کر لیا’ ولید بن عبدالملک کو جگہ مل گئی مگر عیسائیوں نے یہ شرط رکھی مسلمان حضرت عیسیٰ ؑ کے مقام واپسی کو نہیں چھیڑیں گے’ خلیفہ نے شرط مان لی’ خلیفہ نے زمین حاصل کرنے کے بعد وہاں شاندار مسجد تعمیر کروائی’ تعمیر پر دس سال اور گیارہ ملین سونے کے سکے لگے’ یہ مسجد جامع امیہ کہلاتی ہے’ یہ 1300 سال بعد بھی عالم اسلام کے لیے مقدس اور متبرک مقام ہے۔
حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت امام حسین ؓ کے سرمبارک بھی جامع امیہ میں مدفون ہیں’ مسجد کے تین مینار ہیں’ یہ تینوں مینار بناوٹ میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں’ خلیفہ ولید بن عبدالملک نے مسجد کا مشرقی مینار اس جگہ بنوایا جہاں حضرت عیسیٰ ؑ دوبارہ اتریں گے’ یہ مینار سفید رنگ کا ہے اور لوگ اسے مینار عیسیٰ بھی کہتے ہیں’ عیسائیوں اور مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق دجال شام پر حملہ کرے گا’ حضرت امام مہدیؒ بھی دمشق تشریف لے آئیں گے’ مسلمان دجال کے مقابلے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔
عصر کا وقت ہوگا (بعض روایات کے مطابق فجر کا وقت) نماز کے لیے صفیں درست ہورہی ہوں گی اور اچانک حضرت عیسیٰ ؑ دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر سفید مینار پر اتر آئیں گے’ وہ زردرنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے اور ان کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے’ یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مشترکہ عقید ہے لیکن یہ عقیدہ ہمارا موضوع نہیں’ ہمارا موضوع حضرت عیسیٰ ؑ ؑکادنیا میں تشریف لانے کے بعدعام لوگوں کے ساتھ پہلا مکالمہ ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ جامعہ امیہ میں موجود لوگوں کو حکم دیں گے ”سیڑھی کا بندوبست کرو’ میں مینار سے نیچے اترنا چاہتا ہوں” لوگ یہ مطالبہ سن کر ہنسیں گے اور عرض کریں گے ”حضور آپ آسمان سے زمین پر تشریف لے آئے لیکن آپ کومینار سے اترنے کے لیے سیڑھی چاہیے’ کیا یہ بات عجیب نہیں” حضرت عیسیٰ ؑ جواب دیں گے ”میں اس وقت عالم اسباب میں کھڑا ہوں اور عالم اسباب میں آپ ہوں یا میں ہم سب اسباب کے محتاج ہیں” لوگ یہ سن کر سبحان اللہ’ سبحان اللہ کہیں گے’ سیڑھی کا بندوبست کریں گے اور حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر قدم رنجہ فرما دیں گے’ امام مہدیؒ کی اقتداء میں سنت محمدی کے مطابق نماز ادا کریں گے اور دجال سے مقابلے کے لیے کھڑے ہو جائیں گے۔
میں نے جب کتابوں میں یہ وقعہ پڑھا تو عالم اسباب کی ساری تھیوری سمجھ آ گئی’ہم مسلمان خوفناک حد تک ذہنی’ نفسیاتی اور روحانی مغالطے کا شکار ہیں’ ہم پوری زندگی روحانی معجزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں یہ تک فراموش کر بیٹھتے ہیں حضرت موسیٰ ؑ کلیم اللہ تھے’ وہ اپنے عصا سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن وہ بھی اپنی امت کے لیے عالم اسباب کے تقاضے نرم نہ کر سکے’ حضرت عیسیٰ ؑ مُردوں کو زندہ کر دیتے تھے لیکن وہ اور ان کے ساتھی رومن ایمپائر کے اسباب کا مقابلہ نہ کر سکے اور نبی اکرمؐ اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب ترین نبی ہیں لیکن انھیں بھی عالم اسباب میں تلوار’ گھوڑے’ زرہ بکتر’ اونٹ’ پانی’ خوراک اور لباس کا بندوبست کرنا پڑا۔
یہ بھی اپنا دفاع کرتے رہے’ یہ بھی جنگیں لڑتے رہے اور یہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھتے رہے’ انھیں بھی ساتھیوں’ دوستوں’ بھائیوں’ ہجرتوں’ معاہدوں’ جوڑ توڑ اور معاش کی ضرورت پڑتی رہی’ یہ بھی تجارت فرماتے رہے’ یہ بھی اپنے حسب نسب پر فخر کرتے رہے اور یہ بھی اپنے گھر آباد کرتے رہے’ آپ کسی دن فرقے اور مسلک کی عینک اتار کر سیرت کا مطالعہ کیجیے’ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی کوئی ”سب اسٹینڈرڈ” چیز استعمال نہیں کی’ دوست بنائے تو شاندار لوگوں کا انتخاب کیا’ غلام’ خادم اور کنیزیں چنیں تو تہذیب’ شائستگی اور مروت کے شاہکار پسند فرمائے۔
آپؐ نے پوری زندگی کمزور تلوار خریدی اورنہ ہی بیمار گھوڑے اور لاغر اونٹ پر سفر کیا’ آپؐ نے لباس بھی ہمیشہ صاف’ ستھرا اور بے داغ پہنا اور رہائش کے لیے شہر بھی معتدل’ پر فضا اور مرکزی پسند کیا’ آپؐ نے زندگی بھر عالم اسباب میں اسباب کا پورا خیال رکھا’ اچھا کھانا کھایا’ اچھا پھل پسند فرمایا’ اچھی جگہ اور اچھے لوگ پسند کیے اوراس دور کی شاندار ٹیکنالوجی استعمال کی’آپ غور کیجیے عرب حملہ آوروں سے مقابلے کے لیے شہروں سے زیادہ دور نہیں جاتے تھے لیکن آپؐ جنگ بدر کے موقع پر مدینہ سے 156 کلو میٹر دور بدر کے میدان میں خیمہ زن ہو ئے’ آپؐ غزوہ احد کے موقع پر بھی احد کے پہاڑ پر چلے گئے۔
آپؐ نے عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ کے گرد خندق بھی کھودی اور آپؐ نے کافروں سے مقابلے کے لیے یہودیوں کے ساتھ معاہدے بھی کیے’ یہ کیا تھا؟ یہ عالم اسباب میں اسباب کی بہترین مثالیں ہیں’ نبی اکرمؐ عالم ارواح میں چند سیکنڈ میں معراج سے مستفید ہو گئے’ وہ واپس آئے تو وضو کا پانی گرم اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی’ آپؐ نے انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکڑے بھی کر دیے لیکن آپؐ جب عالم اسباب میں واپس آئے تو آپؐ کا دندان مبارک بھی شہید ہوا’ آپؐ طائف میں زخمی بھی ہوئے’آپ کو بھوک’ پیاس’ گرمی’ سردی اور خوف بھی محسوس ہوتا رہا’ آپؐ کی چھت بھی ٹپکتی رہی’ آپؐ بیمار بھی ہوئے’ آپؐ پر زہرکا اثربھی ہوا۔
آپؐ جادو کے اثر سے نکلنے کا بندوبست بھی کرتے رہے اورآپؐ غربت اور بیماری سے پناہ بھی مانگتے رہے’ یہ عالم اسباب کے وہ سبب ہیں جن سے کوئی ذی روح آزاد نہیں ہو سکتا’ آپ اگر وجود رکھتے ہیں’ آپ کی گردن پر اگر سر موجود ہے اور آپ اگر سانس لے رہے ہیں تو پھر آپ نبی ہوں’ ولی ہوں یا پھر عام انسان ہوں آپ عالم اسباب کے تمام اسباب کے محتاج ہیں’ آپ کو پھر مینار عیسیٰ ؑ سے اترنے کے لیے بھی سیڑھی کی ضرورت پڑے گی’ آپ کو پھر حضرت حمزہؓ کی شہادت بھی تکلیف دے گی۔
آپ پھر والدہ کی قبر پر آنسو بھی بہائیں گے اور آپ کو پھر اچھی تلواروں’ اچھے گھوڑوں’ اچھے اونٹوں اور ٹرینڈ فوج کی ضرورت بھی پڑے گی’ آپ کو پھر شفاف پانی’ اچھی خوراک’ طاقتور قانون’ تیز رفتار انصاف’ ماہر ڈاکٹرز’ معیاری تعلیم’ رواں سڑک اور شاندار لائف اسٹائل کی ضرورت بھی ہو گی اور آپ کو پھر سردی’ گرمی اور وباء تینوں کا مناسب بندوبست بھی کرنا پڑے گا’ ہم اگر عالم اسباب میں ہیں تو پھر ہمیں اسباب کا انتظام کرنا ہوگا’ پھر ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی طرح سبب کو ”اسٹیٹ آف آرٹ” بنانا ہو گا’ ہمیں پھر ایسی سیڑھی کا بندوبست بھی رکھنا ہوگا جو حضرت عیسیٰ ؑ کو مینار سے اتار سکے۔
ایسی دوائیں بھی ایجاد کرنا ہوں گے جو امت مسلماں کو صحت مند رکھ سکیں’ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی بھی ایجاد کرنا ہوگی جو سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی پیدا کر سکے’ ہمیں انسانوں کے سکون اور آرام کا بندوبست بھی کرنا ہوگا’ ہمیں کرہ ارض پر دم توڑتی حیات کا خیال بھی رکھنا ہوگا’ہمیں دنیا کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچانا ہوگا ‘ ہمیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے تحفظ بھی دینا ہوگا اور ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہوگا مومن اسباب کی دنیا میں بھی دنیا کو اپنے برابر نہیں آنے دیتا’ ہم محمدی ہیں اور قینچی ہو یا راکٹ ہو ہم کسی بھی فیلڈ میں دنیا کو آگے نہیں نکلنے دیں گے۔
ہم کیسے مسلمان ہیں’ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اسباب کی دنیا میں بھیجا لیکن ہم اسباب ہی سے منہ موڑ کر بیٹھ گئے’ اس امت کو کون بتائے گا انسان اس عالم اسباب میں سبب کے بغیر بے سبب ہو جاتا ہے اور بے سبب لوگ دنیا اور آخرت دونوں میں مار کھا جاتے ہیں’ خدا کے لیے! آپ مسلمان ہوتوآپ عالم اسباب کو عالم اسباب مان کر اسباب کا بندوبست کرو’ ورنہ دنیا آپ سے جینے کا حق تک چھین لے گی