*ایک خوددار پردیسی کی ڈائری کے کچھ اوراق*
تحریر علیم خان فلکی
1 جنوری
آج میں نے Resign کر دیا۔ مجھ سے جونیر ایک سعودی کو منیجر بنا دیا گیا۔ یہ میری قابلیت کی توہین ہے۔ ساراکام ہم کریں اور کریڈٹ وہ لے جائیں یہ غلط ہے۔ جس قوم میں ترقی کی بنیاد بجائے تعلیمی قابلیت کے نیشنالٹی یا واسطہ یا کوئی اور چیز دیکھی جائے وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔
5 جنوری
آج شیخ صاحب نے خود بُلا کر سمجھانے کی کوشش کی اور تنخواہ دس ہزار ریال کر دینے کا وعدہ کیا لیکن میں اپنی خود داری اور وقار کو ریالوں کے عوض بیچنا نہیں چاہتا۔
10جنوری
میں نے واپسی کی سیٹ بُک کروا لی۔ انشاء اللہ جاتے ہی کاروبار شروع کر دوں گا۔ الحمدللہ پورے 25 لاکھ روپئے میرے پاس ہوں گے جو کہ کوئی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتا کہ اتنے بڑے سرمائے سے وہ کوئی کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ میرے دونوں سالے ساجد اور حمید بزنس میں تجربہ کار ہیں دونوں کی مدد سے انشاء اللہ ایک انڈسٹری یا فیکٹری کا آغاز کروں گا۔ میرے اپنے بڑے بھائی احمد اور نوید بھی دوبئی اور امریکہ میں ہیں وہ بھی مدد کرنے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
2 فروری
آج وطن لوٹا ہوں۔ اِس سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی اپنے وطن میں کمائے کھائے اور اپنوں کے درمیان رہے۔ جو محنت لوگ باہر کرتے ہیں اگر یہی اپنے وطن میں رہ کر کریں تو نہ صرف کفیلوں کی غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ ملک بھی ترقی کر سکتا ہے۔
15 فروری
ساجد کے مشورے پر میں نے اس کے ساتھ دس لاکھ لگا دئیے۔ اُس نے ایک ایسے علاقے میں پلاٹ خریدا جو ایک سال میں ہی پچیس لاکھ دے جائے گا۔
25 فروری
حمید کنسٹرکشن کے کام میں برسوں سے لگا ہوا ہے میں نے اُس کے کہنے پر پانچ لاکھ اُس کے ساتھ لگا دئیے۔ ایک سال میں دس لاکھ تک وصول ہو جائیں گے۔
2 مارچ
باہر رہ کر اِتنے سال caprice چلائی اب مسلسل اِسکوٹر چلانا عجیب لگ رہا ہے۔ اِس سے image بھی خراب ہو رہا ہے کیونکہ سبھی دوستوں کے پاس کاریں ہیں اِسلئے حمید نے اپنے ایک دوست سے دو لاکھ میں ایک پُرانی corollaکی ڈیل کروا دی۔
15 مارچ
زرینہ کی ہمیشہ سے شکایت رہتی تھی کہ ہماری شادی کے بعد سے آج تک ہم نے کوئی دعوت نہیں کی ہمیشہ دوسروں کی دعوتوں میں جا کر کھا کر آتے ہیں ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم بھی کبھی دوسروں کو بُلائیں۔ اسلئے ہم نے ببلو کی بسم اللہ کر ڈالی۔ ہال کا کرایہ کھانا اسٹیج اور ویڈیو وغیرہ کے مِلا کر کُل ایک لاکھ خرچ ہوئے
20 اپریل
آج ابّا جان نے بُلا کر کہا کہ شہانہ کے لیے ایک اچّھا رشتہ آیا ہے آجکل لڑکوں کے rates بہت زیادہ ہیں لوگ جہیز وغیرہ کا راست مطالبہ نہیں کرتے صرف یہ کہتے ہیں کہ اپنی خوشی سے جو چاہے دے دیجئے یہ ایک مکّاری ہے وہ رشتہ بھیجتے ہی ایسی جگہ ہیں جہاں سے انہیں بغیر مطالبے کے ہی بہت کچھ مل سکتا ہو۔
5 جون
ببلو کو رائل پبلک اسکول میں اڈمیشن کا ایک ذریعہ ملا ہے لیکن پچاس ہزار ڈونیشن کے علاوہ پچیس ہزار تک پرنسپل سمیت درمیان کے لوگوں کو کھلانا ہے۔ بینک میں پیسے ختم ہو چکے ہیں
20 جون
ساجد کو میں نے جو بھی قیمت آئے پلاٹ بیچنے کے لیے کہا لیکن جواب ملا کہ اُس پر جہانگیر پہلوان کے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے اُلٹا ساجد مجھ سے ہی پولیس کاروائی کے لیے کم از کم ایک لاکھ مانگ رہا ہے ورنہ کیس دو تین سال کھینچ سکتا ہے
25 جون
حمید سے پیسوں کا انتظام کرنے کہا لیکن وہ کہہ رہا ہے کہ بلدیہ والوں نے Illegal construction کا پرچہ پھاڑ دیا ہے کم از کم ایک آدھ لاکھ کھِلانا پڑے گا ورنہ کوئی گاہک پلاٹ خریدنے نہیں آئے گا اور تعمیر کا کام ایسے ہی رُکا رہے گا۔ بلکہ اسٹیل اور سمنٹ کے بڑھتے ہوئے داموں کی وجہ سے خرچ اور بڑھ جائے گا۔
10 جولائی
ابّا جان کو دل کا دورہ پڑا۔ فوری دوا خانے میں شریک کروانا پڑا ڈاکٹر اِس دور کے سب سے بڑے ڈاکو ہیں
فوری ایک لاکھ روپیئے جمع کروانے کے لیے کہا۔
25 جولائی
آج بینک سے چھ ہزار ماہانہ شرحِ سود پر ایک لاکھ کا لون لینا پڑا
14 اگست
احمد بھائی نے کہا کہ بھابھی کے آپریشن اور زچگی کی وجہ سے وہ مقروض ہیں اور دوبئی میں مکانوں کے کرائے اندھا دھند بڑھا دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہیں واپس آنے کی سوچ رہے ہیں
25 اگست
نوید بھائی نے کہا کہ انہوں نے امریکہ میں کریڈٹ پر پٹرول پمپ خریدا ہے مالی حالت خراب ہے
20 ستمبر
بینک کے قرضے کی قسط ادا کرنی ہے سوچا تھا زرینہ کا کچھ زیور بیچ دوں گا یوں بھی یہ عورتیں مردوں کی کمائی کو لاکرز میں سڑاتی ہیں۔ لیکن زرینہ کا زیور اُنکی امی جان کے لاکر میں ہے اور وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکہ گئی ہوئی ہیں۔
3 اکتوبر
کار فروخت کر دی۔ یہاں کی ٹرافک میں کار یوں بھی ایک حماقت ہے آدمی اسکوٹر پر کہیں زیادہ آرام سے پہنچ جاتا ہے۔ فضول کی شان میں پٹرول کا اصراف صحیح نہیں ہے۔
25 اکتوبر
انڈسٹریل لون کے لیے درمیان کے لوگ اور بینک منیجر ایک لاکھ رشوت مانگ رہے ہیں ادا کرنے پر مکان کے کاغذات رہن رکھ کر پچیس لاکھ دیں گے اور تین سال میں پینتس لاکھ وصول کریں گے پتہ نہیں اِس ملک میں لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں محنت اور ایمانداری سے جینا ناممکن ہے۔
1 نومبر
آج شیخ صاحب سے ویزا کے لیے بات کی انہوں نے ایک مہینے بعد فون کرنے کہا
1 دسمبر
آج پھر شیخ صاحب سے بات کی اُنہوں نے تین ہزار ریال ماہانہ کا آفر دیا۔ میں نے ہاں کہہ دیا۔ عزّت کے ساتھ یہ بھی مِل جائیں تو بڑی نعمت ہے ورنہ اپنے ملک میں آدمی دن رات محنت کر کے دنیا بھر کے جھوٹ اور چکمے بازیاں کر کے بھی اتنا نہیں کما سکتا جب کہ وہاں کم از کم جھوٹ دھوکہ چکمہ یہ سب تو نہیں کرنا پڑتا
15 دسمبر
الحمدللہ آج ویزا آ گیا۔ انشاء اللہ ہفتے دو ہفتے میں اس دوزخ سے نجات مِل جائے گی
31 دسمبر
آج دوبارہ سعودی عرب پہنچ گیا الحمدللہ۔ ایک ڈراؤنا خواب تھا جو ختم ہوا۔ اب سوچ لیا ہے کہ ہرگز واپس نہیں جاؤں گا۔
*علیم خان فلکی* (مزاح نگار، شاعر، کالم نگار) کی تحریر