حضرت نے ایک بار گھر کی خواتین کے ساتھ شادی کے لیے جانا تھا سواری بنائی جس کے اوپر گھر کی عورتوں اور بچوں کو بٹھایا۔ اس قافلے مین اکیلے مرد صرف آپ تھے باقی سب زنانہ تھے راستہ میں ایک ویرانہ آیا جہان ڈاکو تاک میں بیٹھے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ سواری پر عورتیں ھے اور مرد صرف ایک ہی ہے تومزید نڈر ہوکر سامنے آۓ، سواری کو گھیر کر اعلان کیا کہ” ہم مال کے ساتھ ساتھ عزتیں بھی لوٹیں گے” آپ رحمتہ اللہ نے فرمایا” مال سارا لیں لو لیکن عورتوں کے سروں سے چادر نہ کھینچو آپ صاحبان کو عورتوں سے زیورات اتارنے کی بھی ضرورت نہیں یہ کام میں کردونگا” ڈاکؤں کے سردار نے جب یہ سنا تو کہا ٹھیک ہے آپ نے گھر کی تمام مستورات سے کہا کہ تمام زیورات اتار دیں ، خواتین بھی نیک دل انسان تھی ایک ہی بولی پر تمام زیورات اتار کر رومال میں لپیٹ کر آپ کے حوالے کردیئے۔ آپ نے کہا وعدے کے مطابق میں نے تمام زیورات آپکے حوالے کردیئے اب براہ کرام ہماری عورتوں کی عزتوں کو پامال نہ کریں اور ہم کو جانے دیں ڈاکوؤں نے جب دیکھا کہ واقعی عورتیں اب زیورات سے پاک صاف ہے تو کہا ” بہت اچھے آپ جاسکتے ہیں”
جب آپ تھوڑا سا آگے بڑھے تو گھر کی عورتوں میں سے ایک نے کہا ” اوہو میری انگلی میں سونے کا چھوٹا سا ایک رنگ باقی رہ گیا ہے میں نے دھان ہی نھیں دیا اور وہ زیورات میں دینے سے باقی رہ گیا” جب مفتی لطف اللہ رحمتہ اللہ نے یہ سنا تو سواری رکوا کر کہا ” یہ رنگ بھی اتار دو کیونکہ ہمارا وعدہ ان سے تمام زیورات کا تھا، ” چنانچہ آپ سونے کا وہ معمولی سا رنگ یا چھلا لیکر ڈاکوؤں کے سمت کی طرف بھاگ کر چلے گیئے۔ کچھ وقت بعد ڈاکوؤں نے جب دیکھا کہ جس سے مال لوٹا ہوا تھا وہ پھر آرہا ہے تو خیران ہوے، جب آپ رحمتہ اللہ وہاں پہنچے تو روتے ہوے کہا
” حضرات میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ تمام زیورات دیں گے لیکن یہ چھوٹا سا رنگ بھول سے ہمارے پاس رہ گیا چونکہ وعدہ تمام مال کا تھا لہذا میں یہ چھلا لایا ہوں کہ آپ لوگوں کے حوالے کردوں ۔ ڈاکوؤں کے سردار نے جب یہ سنا تو ایک دم پسینہ آیا اور کہنے لگے ”
یہ اتنا نیک اور سچا انسان ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات کا بھی دھان رکھا اور دور سے واپس آکر صرف ایک وعدہ نبھانے چھلا یا رنگ واپس کردیا ۔ میں بھی تو اسکی طرح کا مسلمان ہوں اور اپنے پرودگار کا کلمہ پڑھتا ہوں لیکن آج تک اس کلمے کی لاج نہ رکھی، لہذا آج سے مال و عزتیں لوٹنا بند اور اللہ کی طرف توجہ ہوکر معافی کا طلب گار ہوں”
بحوالہ خطبات فقیر
Alamshamozai