سورہ المجادلۃ آیت نمبر 8
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ ۫ وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ بِمَا لَمۡ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ۙ وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوۡلُ ؕ حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۸﴾
ترجمہ:
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں سرگوشی کرنے سے منع کردیا گیا تھا، پھر بھی وہ وہی کام کرتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا ؟ اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ ایسی سرگوشیاں کرتے ہیں جو گناہ، زیادتی اور رسول کی نافرمانی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اور (اے پیغمبر) جب وہ تمہارے پاس آتے ہیں تو تمہیں ایسے طریقے سے سلام کرتے ہیں جس سے اللہ نے تمہیں سلام نہیں کیا، (٥) اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ : ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دے دیتا ؟ (٦) جہنم ہی ان (کی خبر لینے) کے لیے کافی ہے، وہ اسی میں جا پہنچیں گے، اور وہ پہنچنے کی بہت بری جگہ ہے۔
تفسیر:
5: یہودیوں کی ایک شرارت یہ تھی کہ جب وہ مسلمانوں سے ملتے تو السلام علیکم کہنے کے بجائے السام علیکم کہتے تھے، السلام علیکم کے معنی ہیں تم پر سلامتی ہو اور السام علیکم کے معنی ہیں کہ تم پر ہلاکت ہو، چونکہ دونوں لفظوں میں صرف ایک لام کا فرق ہے اس لئے بولتے وقت سننے والے خیال بھی نہیں کرتے تھے، لیکن وہ لوگ اس طرح اپنے بغض کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے تھے، اس آیت میں ان کی اسی شرارت کی طرف اشارہ ہے۔ 6: اپنی مذکورہ شرارتوں کے بعد وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر سزا کیوں نہیں دیتا اور چونکہ ہم پر کوئی سزا مسلط نہیں ہورہی ہے، اس لئے ثابت ہوا کہ ہم برحق ہیں۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی