ایک صاحب سے
ملنے کا اتفاق ہوا جنہیں نہائت مطمئن پایااور باتوں باتوں میں کچھ ایسے راز کُُھلے
کہ اپنی زندگی بیکار نظر آنے لگی
بولے کہ بہت
زیادہ امیر آدمی نہیں ہوں مگرہر وقت گھر
میں چھوٹی پانی کی ڈسپوزیبل بوتلیں رکھتا ہوں اور گرمی کے موسم میں جب بھی باہر
نکلتا ہوں تو ۲-۳ ٹھنڈی کی ہوئی بوتلیں ساتھ رکھ لیتا ہوں اور منزل تک پہنچتے ہوئے
راہ چلتے سائیکل سوار، کسی دھوپ میں کھڑے چوکیدار یا مالی وغیرہ کو پکڑا دیتا ہوں
اور ان سے آسمان کو چھونے والی دعائیں لے لیتا ہوں
بازار آتے
جاتے ایک دو شوارمے خرید لیتا ہوں اور کسی مناسب شخص کو جو اس کا حقدار لگتا ہو
پکڑا دیتا ہوں
مسجد کے پیش
امام کا جس دوکان میں ادھار چلتا ہے وہاں اس کا پچھلا کھاتا مہینے میں ایک آدھ
دفعہ کلیئر کر آتا ہوں
مسجد صاف
کرنے والے خادموں کے گھر کا کرایہ تھوڑا سا ہی ہوتا ہے تو وہ ادا کر آتا ہوں یہ
سوچتے ہوئے کہ یہ اللہ کے گھر کے خادم ہیں
علاقے کے
میڈیکل سٹور والے کو کچھ رقم دے آتا ہوں کہ غریب دیہاڑی داروں سے نفع لینے کی
بجائے اس رقم سے لے لیں اور انہیں دوائی مناسب قیمت پر دے دیں
بچے چُھٹی
والے دن باہر کا ناشتہ لانے کو بولیں تو آتے ہوئے دو چار حلوہ پُوڑی ایکسٹرالے آتا
ہوں اور راستے میں کسی کو دے آتا ہوں
کسی سٹور سے
کوئی چیز خریدتے وقت کوئی بچہ آ جائے تو اس کی ساری شاپنگ کی پیمنٹ میں کر دیتا
ہوں
یہ سب سُن کر
حواس جاتے رہے کہ یہ تو آسان اور سستے سے کام ہیں پِھر اپنے چھوٹے بھائی سے اس
حوالے سےبات ہوئی جو مدینہ میں ہوتےہیں تو بولے کہ مدینہ شریف میں ایسا ہی ہوتے
دیکھتا ہوں روز تو بدن سُن سا ہو گیا کہ یہ تو ہم سب ہی کر سکتے ہیں اور ہم سب ہی
کو کرنا چاہئیے ۔ ۔ ۔
ہم روز اپنے
حُکمرانوں سے ریاست مدینہ کا تقاضا کرتے ہیں کیا کبھی اپنے اندر کی ریاست کو بھی
مدینہ جیسا بنانے کی کوشش کی ہے؟؟؟