لکھنو میں ایک حجام کو ہر ایک کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کی عادت تھی۔
وہ اپنا اوزاروں والا بکس اٹھائے شہر بھر گھومتا رہتا۔ کسی نے بالوں کی کٹنگ کرائی،
کسی نے ڈاڑھی کا خط بنوایا،
جہاں کہیں حجام کو معلوم ہوتا کہ کسی کا نماز جنازہ ہونے والا ہے، وہ اپنا بکس کسی دکان پر رکھواتا اور اس کے جنازے میں شرکت کے لئے پہنچ جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ اسے کئی میل پیدل چل کر شہر کے کسی کونے میں نماز جنازہ پڑھنے جانا پڑتا۔ اس نے کبھی اسے زحمت نہیں سمجھا اور پورے خلوص دل کے ساتھ شریک ہوتا۔
کہتے ہیں کسی دکاندار نے اس سے پوچھا کہ”
تم مرحوم کو جانتے تک نہیں، اس قدر ذوق و شوق سے جنازہ پڑھنے کیوں جا رہے ہو ؟،
یہ فرض کفایہ ہے، ہر ایک کے لئے لازمی نہیں کہ جنازہ پڑھے” ۔
حجام کا جواب تھا،- “” میں اس لئے بھی شریک ہوتا ہوں کہ کیا خبر رب تعالیٰ میرے جنازہ میں بھی برکت عطا کریں ؟ اور ایسے لوگ شریک ہوجائیں جن کی دعاﺅں سے میری مغفرت ہو جائے””
کچھ عرصے بعد لکھنو کے سب سے ممتاز اور قابل احترام عالم دین مولانا فرنگی محلی انتقال کر گئے۔ ان کے جنازے میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ شہر کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔
مولانا کا جنازہ پڑھایا گیا تو اس کے فوراً بعد اعلان ہوا، حضرات جائیے نہیں،
ایک اور جنازہ آ گیا ہے، اس کی نماز ہونے لگی ہے۔ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔
مولانا فرنگی محلی کے جناز ے کے لوگ مسلسل
آرہے تھے، کچھ ان کے جناز ے میں شامل نہیں ہوسکے تھے، بھاگم بھاگ وہ اس دوسری نمازجنازہ میں شریک ہوگئے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ یہ اسی حجام کی نماز جنازہ تھی۔ اللہ نے اس کے ایک عمل کو قبول کیا اور اس کی خواہش کا مان رکھا کہ اس کا جنازہ مولانا فرنگی محلی سے بھی بڑا ہوگیا۔
”خیر کا کام کرنے کرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ کوئی لمبا چوڑا اہتمام کیا جائے،
چھوٹے چھوٹے کاموں سے نیکی اور خیر آگے منتقل ہوسکتی ہے۔
آدمی سیکھنا چاہے تو اپنے آس پاس سے اسطرح کی بہت سی چیزیں سیکھ سکتا ہے “۔
” کوئ نیکی کمتر نہیں۔ نیت اس نیکی
کو کئی گنا بڑھا دیتی ھے “
اللہ پاک ھم سبکو باعمل بنائیں
آمین ثم آمین
(منقول)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکتہ
احمد خان مستوئی حبیب آباد