حضرت سیِّدُنا حارثہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ یقین ومعرفت کے جس مرتبے پر فائز تھے اسی کا نام علم حال یعنی تصوف ہے۔
تصوف کیا ہے؟ اس کے متعلق بزرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن سے بے شمار اقوال منقول ہیں ، کیونکہ ہر ایک نے اپنے مقام و مرتبہ اور حال کے اعتبار سے تصوف کی تعریف کی ہے۔ چنانچہ، امام ابو القاسم عبد الکریم بن ھوازن قشیری عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْقَوِی (متوفی ۴۶۵ھ) رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا رُوَیم بن احمد عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الصَّمَد سے تصوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کو اپنے ربّ کی مرضی پر چھوڑ دے کہ وہ جو چاہے اس سے کام لے اور جب حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی عَلَیْہِ رَحمَۃُاللہِ الْہَادِی سے تصوف کے متعلق پوچھا گیا تو آپ رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: تصوف یہ ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کسی سے بھی کوئی تعلق نہ رکھا جائے
گداۓدر مرشد سرور پیا سرکار
صاحبزادہ فقير احمد رضا قادری سروری