بس پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی.
بس پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی.
اچانک بجلی چمکی.
بس کے قریب آئی اور واپس چلی گئی‘
بس آگے بڑھتی رہی‘
آدھ گھنٹے بعد بجلی دوبارہ آئی‘
بس کے پچھلے حصے کی طرف لپکی
لیکن واپس چلی گئی‘
بس آگے بڑھتی رہی‘
بجلی ایک بار پھر آ ئی.
وہ اس بار دائیں سائیڈ پر حملہ آور ہوئی
لیکن تیسری بار بھی واپس لوٹ گئی.
ڈرائیور سمجھ دار تھا‘
اس نے گاڑی روکی
اور اونچی آواز میں بولا
’’بھائیو
بس میں کوئی گناہگار سوار ہے۔
یہ بجلی اسے تلاش کر رہی ہے‘
ہم نے اگر اسے نہ اتارا تو ہم سب مارے جائیں گے‘‘
بس میں سراسیمگی پھیل گئی
اور تمام مسافر ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگے‘
ڈرائیور نے مشورہ دیا.
“سامنے پہاڑ کے نیچے درخت ہے‘
ہم تمام ایک ایک کر کے اترتے ہیں
اور درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں‘
ہم میں سے جو گناہ گار ہو گا
بجلی اس پر گر جائے گی
اور باقی لوگ بچ جائیں گے”
یہ تجویز قابل عمل تھی‘
تمام مسافروں نے اتفاق کیا‘
ڈرائیور سب سے پہلے اترا،
اور دوڑ کر درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا۔
بجلی آسمان پر چمکتی رہی
لیکن وہ ڈرائیور کی طرف نہیں آئی.
وہ بس میں واپس چلا گیا‘
دوسرا مسافر اترا
اور درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا‘
بجلی نے اس کی طرف بھی توجہ نہیں دی‘
تیسرا مسافر بھی صاف بچ گیا
یوں مسافر آتے رہے‘
درخت کے نیچے کھڑے ہوتے رہے
اور واپس جاتے رہے
یہاں تک کہ
صرف ایک مسافر بچ گیا.
یہ گندہ مجہول سا مسافر تھا.
کنڈیکٹر نے اسے ترس کھا کر بس میں سوار کر لیا تھا.
مسافروں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
لوگوں کا کہنا تھا:
“ہم تمہاری وجہ سے موت کے منہ پر بیٹھے ہیں،تم فوراً بس سے اتر جاؤ”
وہ اس سے ان گناہوں کی تفصیل بھی پوچھ رہے تھے
جن کی وجہ سے ایک اذیت ناک موت اس کی منتظر تھی.
مگر وہ مسافر اترنے کے لیے تیار نہیں تھا
لیکن لوگ اسے ہر قیمت پر بس سے اتارنا چاہتے تھے‘
مسافروں نے پہلے اسے برا بھلا کہہ کر اترنے کا حکم دیا‘
پھر اسے پیار سے سمجھایا،
اور آخر میں اسے گھسیٹ کر اتارنے لگے۔
وہ شخص کبھی کسی سیٹ کی پشت پکڑ لیتا تھا‘
کبھی کسی راڈ کے ساتھ لپٹ جاتا تھا،
اور کبھی دروازے کو جپھا مار لیتا تھا.
لیکن لوگ باز نہ آئے‘
انھوں نے اسے زبردستی گھسیٹ کر اتار دیا.
ڈرائیور نے بس چلا دی.
بس جوں ہی
“گناہ گار شخص “سے چند میٹر آگے گئی،
دھاڑ کی آواز آئی،
بجلی بس پر گری،
اور
تمام مسافر چند لمحوں میں جل کر بھسم ہو گئے.
اور ،وہ مسافر جسے سب *”گناہگار مسافر”*قرار دے رہے تھے، کسےخبر تھی کہ اتنی دیر سے
مسافروں کی جان بچے رہنے کا سبب بنا ھوا تھا،