يُنَبَّأُ الْإِنسَانُ يَوْمَئِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ (13) بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ (14) وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ (15) سورة القيامة .
مکمل آگاہ کیا جائے گا ہر انسان اس روز اس تمام سے جو اس نے آگے بھیجا اور جو اس نے پیچھے کیا ۔ بلکہ انسان کو خود اپنے آپ کے بارے میں خوب آگاہی ہوتی ہے اگرچہ وہ ڈھیروں معذرتیں پیش کرتا پھرے ۔
سورة القيامة کی مذكورة الصدر آيات انسان کے سدھار کے لیئے بہت کافی ہیں ۔
فقیر خالد محمود چند اہم ترین نکات آپ کی توجہ کے لیئے عرض کرتا ہے ۔
✅ اللہ تبارک و تعالی نے خبر کے بجائے نبأ میں سے صیغہ استعمال فرمایا ہے ۔
خبر سچی جھوٹی ہر طرح کی بات کو کہا جاتا ہے جسے تسلیم بھی کیا جا سکتا ہے اور رد بھی لیکن ” نبأ” امر پوشیدہ کی خبر ماسوائے ہٹ دھرمی کے جس کا انکار نہ کیا جا سکے ۔
✅ جو اس نے آگے بھیجا اور جو اس نے پیچھے کیا ، کا محاوراتی مطلب ہے ،
” اگلے پچھلے ، نئے پرانے ، چھوٹے بڑے ، بھلے برے ، سب کچھ ، تمام کا تمام ، ”
سلف مفسرین سے یہ معانی بھی منقول ہیں ۔
✅ تقدیم کا مطلب ہے کہ جو اچھے یا برے لیکن وقتی اعمال وہ اپنی دنیوی زندگی میں خود کر کے آیا ہے اور تاخیر کا مطلب ہے وہ بھلے یا برے اعمال جو اس کے مرنے کے بعد بھی جاری ہیں ۔
✅ اپنے اموال میں سے جو اپنی زندگی میں صرف کر کے آیا ہے وہ اگلے ہیں اور پچھلوں سے مراد وہ اموال ہیں جو یہ چھوڑ کر آیا ہے ۔ ( یعنی اگر ورثاء نے اچھے امور میں صرف کیئے تو اس کو بتایا اور ان کا اجر دیا جائے گا اور اگر ورثاء نے غیر شرعی امور میں اڑائے تو اس کو بتایا اور ان کا عذاب بھی دیا جائے گا ۔ فقیر خالد محمود )
✅ جناب الضحاك نے کہا ہے کہ : انسان کو آگاہ کیا جائے گا اس کے ان فرائض سے جو وہ پورے ادا کر کے ایا ہے اور ان سے بھی جو اس نے ترک کر دیئے ( اب اس ترک کا حساب دے )
✅ القشيري نے کہا ہے کہ : یہ آگاہی بروز قیامت وزن اعمال کے وقت ہو گی اور بوقت موت بھی .
آیتوں کا مفہوم ذہن میں دوبارہ تازہ کر لیں ۔
✅ اپنے آپ سے مراد انسان کا سارا وجود ہے ، تمامی ظاہری اعضاء بھی اور باطنی حواس و مشاعر بھی ۔
متعدد قدیم تفاسیر ( طبرى ، قرطبى ، ابن كثير ) میں یہاں جلیل القدر تابعی مفسر حضرت قتادہ رحمه الله تعالى سے اکثر انسانوں کی یہ نفسیاتی بیماری مذکور ہے
: والله – جب بھی تم چاہو گے اس انسان کو تم دیکھو گے کہ اور لوگوں کے عيوب و ذنوب کا اس کو بڑا تفصیلی علم ہوگا ، اور غافل ہو گا تو بس اپنے گناہوں سے ۔
اور بتایا جاتا ہے کہ : اے ابن آدم ، اپنےبھائی کی آنکھ میں تجھے تنکا بھی بخوبی نظر آ جاتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں پڑے لمبے چوڑے شہتیر کو تو چھوڑ دیتا ہے ۔ وہ تجھے نظر نہیں آتا ۔
فقیر خالد محمود ان دو آیتوں کے متعلق یہ عرض کر سکتا ہے کہ انسانی معاشرہ کی مکمل فلاح و صلاح کے لیئے قواعد کی شان رکھنے والی آیات بینات میں سے یہ بھی ہیں ۔
جب انسان کو واقعتا یہ یقین ہو جائے کہ اپنی کمزوریوں اور نقائص کے لیئے میں نے جو اعذار تراش رکھے ہیں یہ ہیں تو بے بنیاد ، عذر لنگ ہیں،
تو اب وہ ان کی اصلاح کی جانب مائل ضرور ہوگا ۔۔
اسی طرح دوسروں کے عیوب و ذنوب کا تجسس اور پھر ان کا بیان جب ختم ہو جائے گا تو جہاں ایک پاکیزگی کا دور دورہ ہو گا وہیں پہ بھائی چارہ ، محبت و تکریم بھی بڑھے گی ۔ امن و امان عام ہوگا ۔
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا