ایک نوجوان مسلمان جو سڈنی آسٹریلیا میں پیدا ہوا اور ایک بہت کامیاب زندگی گزاری۔ میرا دوست علی ۔ یہ ابھی کچھ وقت پہلے کی بات ہے کہ اسکی زندگی میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی۔۔۔
یہ علی کی کہا نی ہے۔
محمد: آپ اب اپنی زندگی میں کہاں ہیں؟ کیا ہوا آپ کو؟
علی: *الحمدللہ* یہ وقت مجھے تحفہ ملا ۔ سرطان Cancer میرے تمام بدن میں پھیل چکا ہے۔ میں نے اپنی تمام زندگی کو بدل لیا ہے تاکہ لوگوں کی مدد کر سکوں۔
محمد: علی تم نے اسے تحفہ کیوں کہا؟
علی: *الحمدللہ* تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں! یہ تحفہ اسلئے ہےکیونکہ (روتے ہوئے) یہ تحفہ اسلئے ہے کیونکہ *اللہ* نے مجھے اپنے آپ کو بدلنے کا موقع دیا۔
محمد: کینسر نے تمھاری زندگی میں کیا تبدیلیاں کیں، کیسے تمھاری دنیا بدلی؟
علی: میری ساری زندگی ہی بدل گئی ہے۔ یہاں تک کہ میں ایک سب سے چھوٹے تحفہ یعنی تازہ ہوا میں سانس لینے کا بھی شکر کررہا ہوں۔
محمد: آپ کو کینسر کب سے ہے؟
علی: تین ماہ ہوگئے ہیں۔
محمد: علی کو چوتھی اسٹیج کا کینسر ہے اور اسکے پاس مزید صرف سات ماہ کا وقت باقی بچا ہے۔ یہ سننے کے فوری بعد اسنے اپنا کامیاب کاروبار بیچا اور اپنے اس شاہانہ لائف اسٹائل کو بدلنے کا ارادہ کر لیا جسکا وہ عادی ہوچکا تھا۔۔۔ اب سب بدل چکا تھا۔۔
سوال کرتے ہوئے: علی جب تم نے اپنے کینسر کی خبر سنی تو تمھارا ردعمل reaction کیا تھا؟
علی: میں نے اپنی گاڑیوں اور دستی گھڑیوں سے چھٹکارہ حاصل کیا۔ یہاں تک کہ اپنے ان کپڑوں سے جو میں نے بیرونِ ملک Overseas سے خریدے تھے۔وہ میں نے تمام دے ڈالے۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ میں جب میں اس دنیا سے جاوں تو میرے پاس کچھ نہ ہو۔
محمد: تو گویا تم دنیا اور اسکی رنگینیوں سے نجات پانے کے مشن پر ہو؟
علی: مسکراتے ہوئے ۔ ایسا ہی ہے۔
محمد بتاتے ہوئے کہ علی نے ہمیں اپنے کمرہ کی سیر کروائی تو ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ کسقدر پرتعش luxurious زندگی گزار رہا تھااور اب ان سے لاتعلق ہونے کو تیار تھا۔
محمد: یہ کیا ہے علی؟
علی: یہ کنگن Bracelet ہے اور اسکی قیمت 60،000ڈالر ہے۔
محمد: کیا ساٹھ ہزار ڈالر؟ جی ہاں۔ علی نے جواب دیا۔ یہ ڈبے کیسے ہیں؟
علی: یہ میرے جوتے ہیں۔
محمد: اس جوتے کی قیمت کیا ہے؟ اور اس چپل کی؟ اور یہ جو مختلف sunglasses ہیں؟
علی: یہی کوئی 1300 ڈالر ہوگی۔ اور اس چپل کی 700 ڈالر۔ مجھے دھوپ کے چشمے جمع کرنے کا شوق ہے۔ لیکن اب میں ان سے چھٹکارہ پارہا ہوں میں نے یہ افریقہ میں کچھ لوگوں کو دے دیئے۔
محمد: تو گویا تم مجھےیہ بتارہے ہو کہ یہ افریقی بچہ پہنے گا۔ ۔۔۔۔ اجازت لے کر ہیٹ پہنتے ہوئے۔۔
علی درحقیقت اب اس دنیا سے یکدم دور ہوچلا تھا اب اسکی نظر میں انکی کوئی جگہ نہ بچی تھی۔
علی کو مخاطب کرکے گاڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے محمد نے پوچھا اب تمھاری ان چیزوں کے بارے میں کیا تاثرات ہیں؟
علی: اب ڈرائیونگ کرتےہوئے یہ مجھے متاثر نہیں کرتی۔ دراصل یہ وہ نہیں ہے جو میں چاہتا ہوں۔
علی کی یہ فیراری کار 600،000چھ لاکھ ڈالر کی ہے۔
علی کہتا ہے کہ اگر کوئی بتائے کہ تم بیمار ہو اور اس دنیا میں تمھارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے تو یہ (فیراری) وہ آخری چیز ہوسکتی ہے جسکی وہ خواہش کرسکتا ہے۔ یہ کار وہ ہے جسمیں لوگ بیٹھنےکی آرزو کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط مقصد ہوگا۔ جب کسی کو پتا چلے کہ تم بیمار ہو اور تمھارے پاس زیادہ وقت نہیں تو پھر یہ تمام چیزیں تمھارے لئے بے معنی و بے فائدہ ہوجاتی ہیں۔ اسکی حیثیت میری نظر میں کچھ نہیں۔۔۔
علی نے اپنا وقت اور دولت انکے لئے وقف کردی ہے جنکے پاس کچھ نہیں۔۔۔۔افریقہ جانے کے بعدعلی نے ایک خیراتی پراجیکٹ شروع کیاہے جسکا نام MATW مسلمز اراونڈ دا ورلڈ ہے۔۔۔۔
یہ سب اسوقت سے شروع ہوا جب میں قبرستان گیا جہاں ایک بھائی کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر دنیاچھوڑ چکا تھا۔ میں اسوقت قبرستان مٰیں تھا اور اپنے بارے میں سوچ رہا تھا کہ جب آپ یہاں آو گے تو یہاں کچھ نہ ہوگا، وہاں تمھارے لئے کوئی بھی تو نہ ہوگا۔ نہ ماں، نہ باپ نہ بھائی نہ بہن مگر تمھارے *اعمال* ۔ یہاں تک کہ تمھارا روپیہ پیسہ، دولت بھی رہاں نہ ہونگے۔ جو کچھ تمھارے ساتھ ہو گا وہ صدقہ خیرات charity ہوگی جو قبر میں تمھارے ساتھ ہوگی اور تمھارے آخری پڑاو یعنی روزِ قیامت تک تمھارے ساتھ جائےگی۔
محمد: جیسے جیسے موت کی حقیقت اپنا اثر دکھاتی ہے علی اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اپنے آپ کو *اللہ* کے سامنے حاضر ہونے کے لئے تیار کر رہا تھا۔
پیغبرِ اسلام نے فرمایا: وہ جو *اللہ* سے ملاقات کا خواہاں ہو تو *اللہ* بھی اس سے ملاقات کو پسند فرماتا ہے۔ اور جو *اللہ* کی ملاقات سے بھاگتا ہے *اللہ* بھی اس سے ملاقات نہیں کرتا چاہتا۔
علی کیا تم *اللہ* سے ملاقات کرنا پسند کرتے ہو؟
اس کینسر کے ہونےکے بعد ایک بھائی نے مجھے خاص دوا لینے کو کہا جو *سبحان اللہ* بہت طاقتور تھی۔۔۔ اور میں نے وہ کچھ دیکھا وئ اس سے قبل کبھی نہ دیکھا تھا، وہ بہت خونصورت تھا۔ یہاں تک کہ میری فیملی موجود تھی میں نے کہا ’’اے اللہ مجھے اٹھا لے‘‘ میں وہاں جانا چاہتا تھا۔ اگلے روز جب میں جاگا تو مجھے اسبات کا بہت افسوس تھا کہ *اللہ* نے مجھے زندہ کیوں چھوڑا۔
محمد: میں *اللہ* سے دعا کروں گا کہ *اللہ* تمھیں اس مرض سے شفا دے اور تمھیں ہمارے ساتھ ایک طویل عرضہ تک رکھے۔
*اللہ سبحانہ تعالیٰ* تمھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین