کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بےایمان چور رہتا تھا جس کا نام شیدا تھا؟ شیدا اپنی چالبازیاں اور چوریوں کی وجہ سے گاؤں بھر میں مشہور تھا۔ کوئی بھی اس پر بھروسہ نہیں کرتا تھا، حتیٰ کہ اس کے اپنے خاندان والے بھی۔
ایک دن شیدا نے سوچا کہ کیوں نہ کوئی بڑا ہاتھ مارا جائے۔ اس نے منصوبہ بنایا کہ گاؤں کے سب سے امیر شخص، ملک صاحب، کے خزانے کو لوٹا جائے۔ رات کے اندھیرے میں شیدا چپکے سے ملک صاحب کے گھر میں داخل ہوا اور خزانہ چوری کر لیا۔ لیکن جیسے ہی وہ باہر نکلنے لگا، اس کا پیر پھسل گیا اور وہ زوردار آواز کے ساتھ زمین پر گر پڑا۔
آواز سن کر ملک صاحب جاگ گئے اور فوراً پولیس کو بلا لیا۔ شیدا کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کے سامنے شیدا نے اپنی چوری کا اعتراف کیا اور کہا، “میں نے یہ سب پیسوں کے لالچ میں کیا۔ مجھے معاف کر دیں۔”
پولیس نے شیدا کو جیل بھیج دیا اور ملک صاحب نے کہا، “شیدا، تمہیں اب سیکھنا ہوگا کہ بےایمانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔”
جیل میں شیدا نے اپنے اعمال پر غور کیا اور پہلی بار اس نے سوچا کہ اگر وہ ایمانداری سے کام کرتا تو کیا ہوتا۔ اسے یہ احساس ہوا کہ ایمانداری ہی حقیقی دولت ہے۔ جب وہ جیل سے رہا ہوا، تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ کبھی بےایمانی نہیں کرے گا اور گاؤں کی بھلائی کے لئے کام کرے گا۔
شیدا نے گاؤں والوں سے معافی مانگی اور ان کے لئے ایک اسکول قائم کیا تاکہ وہ بچوں کو ایمانداری اور دیانت داری کا سبق دے سکے۔ گاؤں والے شیدا کی تبدیلی سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اسے دوبارہ قبول کر لیا۔
یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بےایمانی اور کرپشن سے نہ صرف ہمارا خود کا نقصان ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرے پر بھی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ایمانداری اور دیانت داری ہی وہ اصول ہیں جو ہمیں حقیقی خوشی اور سکون دیتے ہیں۔