ایک بڑے اسکول کے چھوٹے سے بچے کو جب میں نے کلاس میں ریپر پھینکتے دیکھا تو فورا بولا بولا
“بیٹا اس کو اٹھائیں”
تو اس بچے نے جھٹ جواب دیا کہ
“انکل ! میں کوئی سوئیپر تھوڑی ہوں، تھوڑی دیر میں سوئیپر انکل آ کر اٹھا لینگے۔”
یہ اس بچے کا جواب نہیں تھا، یہ اس اسکول کا جواب تھا جہاں سے وہ تعلیم حاصل کررہا ہے۔
✍میں نے کئی لوگوں کو بغیر ہیلمٹ اور بغیر سیٹ بیلٹ باندھے سگنل توڑتے ہوئے پاکستان کے ٹریفک کے نظام کو گالیاں دیتے دیکھا ہے۔
✍میں نے کئی لوگوں کو فٹ پاتھ پر پان کی پیک مارتے، اپنی گلی کے سامنے والی گلی میں کچرا ڈالتے، سگریٹ پی کر زمین پر پھینکتے اور پھر دبئی اور لندن کی صفائی ستھرائی کا ذکر کرتے دیکھا ہے۔
✍اپنے مکان کی تعمیر کے دوران اچھے خاصے درخت کو کاٹتے اور اور پھر سنگاپور کی ہریالی کا ذکر کرتے سنا ہے۔
✍میں نے کئی ماؤں کو چیختے ہوئے دیکھا ہے جو اپنے بچوں کو چیخ کر کہتی ہیں کہ چیخا مت کرو میں کوئی بہری نہیں ہوں۔
✍کئی باپوں کو مارتے ہوئے دیکھا ہے کہ جو بچوں کو کہتے ہیں آئندہ بھائی کو ہاتھ مت لگانا ورنہ ہاتھ توڑ دونگا۔
✍اپنے گھر کی گیلری کو بڑھاتے اور گلی گھیرتے دیکھا ہے اور ان ہی کی زبان سے امریکا اور یورپ کی چوڑی چوڑی گلیوں اور سڑکوں کا ذکر سنا ہے۔
✍میں نے مسجد کے باہر بیچ روڈ پر لوگوں کو گاڑی پارک کرتے دیکھا ہے کہ جن کو نماز کو دیر ہورہی ہوتی ہے اور پھر ان ہی لوگوں سے کئی کئی گھنٹوں حقوق العباد پر لیکچر سنا ہے۔
✍نجانے کتنے لوگوں کو شادی میں وقت کی پابندی اور سادگی پر جلتے کڑھتے دیکھا ہے اور پھر ان ہی کے گھر کی شادیوں میں وقت کو برباد ہوتے اور سادگی کی دھجیاں اڑتے دیکھی ہیں اور پتہ نہیں کتنے لوگوں کو
*ارے خیر چھوڑیں گزارش بس اتنی تھی کہ ہر کام سیاست دانوں یا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے*
✍کچھ کام ہمارے کرنے کی بھی ہوتے ہیں ۔ھم کو خود اپنے حصے کا کام پورا کرنا ھے، *جو اچھی چیز دیکھنا چاہتے ہیں وہ پہلے اپنے اندر لانی ھوگی۔*
*سوچیے گا ضرور*