. ابو مطیع اللہ حنفی
ایک مرتبہ خلیفہ مامون رشید کو معلوم ہوا کہ اس کی حکومت میں کچھ لوگ ہیں جو بے دین ہو گئے ہیں ، اس نے حکم دیا کہ ان سب کو گرفتار کر لیا جائے ۔ حکم پر عمل ہوا اور ان کی گرفتاری کے لیے سپاہی بھیج دیے گئے ۔*
*سپاہیوں نے فوراً ان کو گرفتار کر لیا اور خلیفہ کے دربار کی طرف لے جانے لگے ، اسی دوران ایک طفیلی (مفت کھانے والا) انھیں دیکھ رہا تھا ، وہ یہ سمجھا کہ ہو نہ ہو اتنے سارے لوگ یقیناً کہیں ولیمہ کھانے جا رہے ہیں ، کیوں نہ میں بھی ان میں شامل ہو جاؤں اور مفت کے مزے اڑاوں ، یہ سوچ کر وہ آہستہ آہستہ ان کے قریب ہوا اور خاموشی سے ان میں شامل ہوگیا ۔*
*کچھ دیر بعد ان سب قیدیوں کو کشتی میں بٹھایا گیا ، یہ بھی خاموشی سے بیٹھ گیا ، تھوڑی ہی دیر بعد سب قیدیوں کو مضبوط باندھ دیا گیا ، ساتھ مفت کھانے والا بھی بندھا ، اب تو بہت پچھتایا اور پریشان ہوکر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ، لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔*
*آخر کار ان سب قیدیوں کو خلیفہ مامون کے دربار میں پہنچا دیا گیا اور ایک ایک کر کے سب کا مقدمہ سنا جانے لگا ، جب سب لوگ فارغ ہو گئے اور اس مفت کھانے والے کی باری آئ تو خلیفہ مامون نے پوچھا : کیا یہ بھی ان ہی لوگوں میں سے ہے ؟*
*سپہ سالار نے جواب دیا : امیرالمومنین! ہم نہیں جانتے یہ کون ہے ، لیکن جب ہم نے ان سب کو گرفتار کیا تو یہ بھی ساتھ تھا ، لہٰذا ہم نے اس کو بھی گرفتار کر لیا ، اب یہ آپ کے سامنے ہے ، جیسا چاہیں معاملہ فرمائیں ۔*
*خلیفہ مامون نے اس سے پوچھا : تو کون ہے اور یہاں تک کیسے پہنچا ؟*
*اس نے جواب دیا : امیرالمومنین! مجھے تو معلوم بھی نہیں کہ یہ لوگ کون ہیں ، میں نے تو یہ دیکھا کہ بہت سے لوگ کہیں جارہے ہیں تو سوچا یقیناً یہ لوگ کسی ولیمے میں شرکت کے لیے جا رہے ہوں گے ، لہذا میں ساتھ ہو لیا اور یہاں آپہنچا ۔*
*اس کی کہانی سن کر مامون کو بے اختیار ہنسی آگئ ، اس نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روکی اور اس مفت کھانے والے سے پوچھا : کیا تمھیں معلوم نہیں کہ مفت کھانے کا انجام کتنا بُرا ہوتا ہے ؟*
*مفت کھانے والے نے کہا : جی !*
*مامون نے کہا : یہ شخص بچ گیا ، لیکن اس کو ادب سکھانا چاہیے تاکہ یہ آئندہ ایسا نہ کرے ، لہذا اس کو تعلیمی ادارے میں رکھا جائے تاکہ زندگی گزارنے کے آداب سیکھے ۔*
*پیارے بچو ! دوسروں کو کھلانے کی بہت فضیلت ہے ، کھلانے میں عزت ہے ، جب کہ دوسروں سے کھانے کی طلب کرنے میں ذلت اور رسوائی ہے ، اس لیے ہم کھلانے والے بنیں نہ کہ دوسروں سے کھانے والے اور مانگنے والے ۔
.