ایک بک میں ناول کا مرکزی کردار اپنی لکھی ہوئی پہلی کہانی کے بارے میں بتاتا ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے:ایک بندے کو ایک جادوئی کپ ملا جسکی خاصیت یہ تھی کہ اس میں روئیں تو آنسو موتی بن جاتے ہیں۔ اب وہ بندہ بڑا خوش باش سا تھا لیکن موتیوں کے لالچ میں رونا بھی ضروری تھا۔ جتنا آنسو بہاتا، اتنے زیادہ موتی ملتے۔ مزید موتیوں کی لالچ میں مزید رونے ڈالنا۔ کہانی کا اختتام یہاں ہوتا ہے کہ بندہ موتیوں کی پہاڑی پر بیٹھا ہے۔ ہاتھ میں چاقو ہے، مری ہوئی بیوی کی لاش بازوؤں میں اور کپ میں آنسو بہاتا جاتا ئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
مجھے رک کر دوبارہ یہ کہانی پڑھنی پڑی۔
کیا سوشل میڈیا پر یا انفرادی لیول پر بھی ہمدردیاں لینے کا چسکا ایسا ہی نہیں؟ مانتی ہوں مشکل وقت آ جاتا ہے، یہ بھی مانتی ہوں کہ انسان کسی سے کہہ کر دل ہلکا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ جو pity party کا سین آن رہتا ہے، خود کو ہمہ وقت وکٹم مائنڈ سیٹ میں رکھنا، ہمدردیاں بٹورنا، ہر ایک کے سامنے اپنی مصیبتوں کی پٹاری کھول بیٹھنا۔۔
اب پھر سے کہانی پڑھیے۔
جی۔ یہ جادوئی پیالہ سوشل میڈیا ہے۔ اس کا ایک آنسو ایک موتی بنتا تھا۔ یہاں ایک آنسو پر کئی کئی موتی کامنٹس اور ہارٹ ایموجیز اور انباکس میسجز کی صورت ملتے ہیں۔ رونی شکل، اداس شاعری، دل ٹوٹ قسم کے سٹیٹس۔۔ موتیوں کی چاہ میں مزید رونے دھونے، مزید ہائے ہائے۔۔
نقصان اپنا ہے۔
خیال رکھیے۔
پریشان ہیں، کسی سے کہیے۔ لیکن ہر کسی سے نہ کہتے رہیے، اور کہتے ہی نہ چلے جائیے۔
خود کو خود سہارا دینے کی عادت ڈالیے۔ آسانیاں راستہ بناتی جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔
نیّر تاباں
نیر تاباں