ایک صوفی تھکا ہارا جنگل میں جا رہا تھا ۔ اور چلتے چلتے ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں جنگل کے جانوروں کا اجتماع تھا اور محفل مباحثہ گرم تھی ۔ اس صوفی کو چونکہ جانوروں کی بولیوں کا علم تھا اس لیے وہ رک کر سننے لگا ۔ مباحثے کی صدارت ایک بوڑھے شیر کی سپرد تھی ۔
سب سے پہلے لومڑی اسٹیج پر آئی اور کہا بردارنِ دشت سنئیے اور یاد رکھئیے کہ “چاند سورج سے بڑا ہے اور اس زیادہ روشن ہے”۔
ہاتھی نے اپنی باری پر کہا ” گرمیاں سردیوں کے مقابلے میں زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں ” ۔
جب باگھ اسٹیج پر آیا تو سارے جانور اس کی خوبصورتی سے مسحور ہو گئے ۔ اس نے اپنے پیلے بدن پر سیاہ دھاریوں کو لہرا کر کہا “سنو بھائیو ! دریا ہمیشہ سے اوپر کو چڑہتے ہیں ” ۔
صوفی نے شیر ببر سے کہا صاحبِ صدر ! یہ سب غضب کے مقرر ہیں اور ان کی وضاحت نے اس محفل کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ سارے مقررین نے سارے ہی بیان غلط دیئے ہیں اور ہر بات الٹ کہی ہے۔ سامعین کو یا تو پتہ نہیں یا انہوں نے توجہ نہیں دی یا پھر وہ لا تعلقی سے سنتے رہے ہیں ۔ ایسی احمقانہ اور غلط باتیں کرنے کی کس نے اجازت دی۔
شیر نے کہا ” صوفی صاحب ! یہ واقعی ایک عیب دار بات ہے اور شرمناک بات ہے لیکن ہمارے سامعین انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں انلائنمنٹ نہیں ۔ پتہ نہیں ہم کو یہ عادت کیسے پڑی لیکن پڑ گئی ہے”۔