نسخہ
تحریر مبشرہ ناز
بسوں کے اڈے پر بنے چائے کے ڈھابے میں بیٹھے اس نابینا شخص کو میں اکثر دیکھا کرتا ۔ چادر کی بکل مارے اللہ اللہ کرتا وہ شخص نہ جانے کیوں مجھے بہت عجیب لگتا۔ عجیب ایسا کہ دل اُس کی طرف کھنچتا ۔ میرا جی چاہتا کہ اس سے بات کروں مگر جلدی کے سبب بات ہو نہ پاتی ۔ اس روز اتفاق سے میری بس نکل گئی اگلی گاڑی آنے میں کافی وقت تھا میں ُاس شخص کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
کیا حال ہے بابا جی ۔؟ شکر ہے اللہ کا لاکھ لاکھ ۔۔۔ پتر تو سنا
آج کیا بات ہے ادھر کیوں بیٹھا ہے لگتا ہے گاڑی چھوٹ گئی
۔ ہاں بابا جی دفتر میں کام زیادہ تھا ،گھر جانے کے لیئے نکلا تھا کہ یہ مصیبت آن پڑی ، اب تین گھنٹے گرمی میں یہاں پڑا سڑتا رہوں گا ۔ میرے لہجے میں تھکن بھری تھی ، پر آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں روزانہ یہاں سے گزرتا ہوں ۔ ُتو میرے بارے میں سوچ سکتا ہے تو میں کیوں نہیں پتر ؟ دیکھ نہیں سکتا تو کیا ہوا محسوس تو کر سکتا ہوں ۔ ُتو روزانہ پاس سے گزرتا ہے آج تیری خوشبو ٹہر گئی ۔ بس پہچان لیا میں نے ۔۔۔!
ارے پُتر دل کو دل سے راہ ہوتی ہے اور پھر خوشبو تو خودبخود راستہ بنا لیا کرتی ہے ۔ اتنے میں ایک بچہ آیا بابا جی دو چار پائیاں بننی ہیں کل آ کر بُن دیں ٹھیک ہے پتر کل مجھے آ کر لے جانا ۔
شکر ہے رب سوہنے کا دیکھ زرا اس نے کل کی روٹی کا آج ہی بندوبست کر دیا کتنا پیار کرتا ہے وہ اپنے بندے سے ۔
میں حیران رہ گیا نابینا ہونے کہ باوجود وہ محنت مزدوری کر کے پیٹ پال رہے تھے ۔ ارے تُو حیران کیوں ہوتا ہے ساری عمر یہ کام کیا ہے آنکھیں اندھی ہیں پُتر ، پر ہاتھ دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کو محنت کی عادت ہے یہ منجی پر داون یوں بُنتے ہیں جیسے سلائیوں پر اون ۔
بابا جی کے نمونے تو ایسے ہوتے ہیں جیسے دلہن کے ہاتھ پر مہندی پاس بیٹھے شخص نے گواہی دی ۔
جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے اللہ بھلا کرے ارد گرد والوں کا ۔ سب کو کہہ رکھا ہے جسے چارپائیاں بنوانی ہوتی ہیں آ کر لے جاتا ہے ۔ روٹی کا بندوبست ہو جاتا ہے میں اور میری گھر والی ہی تو ہیں زیادہ کی چاہ ہی نہیں پتر ۔یہ کہہ کر بابا جی نے ٹفن کھولا دو روٹیاں صاف ستھرے دسترخوان میں لپٹی تھیں تھوڑےسے اچار اور پیاز کے ساتھ
“لے آجا کھا لے“
نہیں بابا جی آپ کھائیں
تکلفاً نہ کرنے کہ باوجود جانے کیوں میرا دل روٹی کھانے کو مچل گیا ارے آجا پُتر تکلف کیوں کرتا ہے مجھے ویسے بھی اتنی بھوک نہیں ہے جھلی نے صبح زبردستی رات کے سالن کے ساتھ روٹی کھلا کر بھیجی تھی ۔ سالن میری پسند کا تھا نا ۔
گھر والی کا نام آتے ہی اُن کے لہجے میں مسکراہٹ کی آمیزش محسوس ہوئی ۔ میرے ارد گرد محبت کی خوشبو پھیل گئی ۔ کسی پرانے کمرے میں اگر بتی کی خوشبو رچی ہو جیسے ۔ وہ میرا خوشبو دار مسکراہٹ سے پہلا تعارف تھا ۔
رفاقتیں محبتیں ہنڈا کر ایسی ہی خوشبودار ہو جاتی ہیں شاید ۔
اچانک موسم بدلا اور ہلکی ہلکی بارش ہونے لگی ،
میں نے بابا جی کی مسکراہٹ اور خوشبو دار لہجے کا لطف اُٹھاتے ہوئے پوچھا اچھا کیا پکا تھا بابا جی ۔۔۔؟ ۔ ارے پتر آلو کی بھجیا تھی بہت ہی لذیذ ۔ سبز دھنییئے اور ہری مرچ میں لپٹی خوشبو سے بھری ۔ آلو کی بھجیا کا سن کر آنکھوں کے سامنے آتے قورمے کڑاہی میری طرف دیکھ کر کھسیانی ہنسی ہنسے ۔
بڑی زرخیز ہے میرے وطن کی مٹی ۔ پُتر بڑی قدر کرنی چاہیئے اس مٹی کی ، رحم میں بچے کی طرح پالتی ہے یہ فصل کو ۔ دھرتی یونہی تو ماں نہیں کہلاتی ۔
بارش کی چند بوندوں کے بعد مٹی سے اُٹھتی خوشبو اپنی وفا کی گواہی دے رہی تھی میرا دل بے اختیار عطر دار بارشوں کی اس سرزمین
کے لیئے محبت سے بھر گیا ایسی محبت پہلی بار محسوس ہوئی تھی مجھے ۔
آنکھیں قدموں سے لپٹ گئیں ، پہلی بار نظر اپنے تخت سے اتر کر محبوب کے قدموں سے جا لپٹی تھی پہلی بار نظر واری جانے کو بے تاب ہوئی تھی ۔ میرے اندر کوئی اور آن بسا تھا شاید
بابا جی کے اصرار پر روٹی کا نوالہ چکھا منہ میں جیسے ملائی گھل گئی اتنی خستہ اور لذیذ روٹی میں نے کبھی نہیں کھائی تھی ۔ روٹی کھا کر بابا جی نے شکر ادا کیا ان کی نابینا آنکھوں میں پانی جھلملا رہا تھا بے نور آنکھوں میں اتنا نور کبھی نہیں دیکھا تھا میں نے ۔۔!
سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم اتنے ناآسودہ کیوں ہیں آج مجھے میرے اس سوال کا جواب مل گیا تھا ۔ ناشکری گدھ کی طرح نوچ نوچ کر ہمارے سکھ کھا جاتی ہے ۔
بابا جی دیکھ نہیں سکتے تھے مگر اُن کا دل بینا تھا ۔
اور میں آنکھیں ہوتے ہوئے بھی اندھا
بس آ گئی تھی ۔۔۔۔!
چند گھنٹوں کی ملاقات احساسِ زیاں کا کاری واری لگا گئی
ملال کے کہرے میں لپٹے دل کی مٹھی میں تھوڑی سی بینائی رکھی تھی ۔میں نے کس کر مٹھی بند کر لی اور بابا جی کو خدا حافظ کہہ کر چل دیا ۔۔۔!
تحریر مبشرہ ناز