بولنے سے اپنے علمی و تربیتی حدود کا تعین ضرور کرلیا کریں
ایک جہاز پر پاس بیٹھی باحجاب لڑکی سے ایک لبرل خیالات کا حامل شخص بولا: “آئیں کیوں نہ کچھ بات چیت کر لیں، سنا ہے اس طرح سفر بآسانی کٹ جاتا ہے۔”
لڑکی نے کتاب سے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا: “ضرور، مگر آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہیں گے؟”
اُس شخص نے کہا: “ہم بات کر سکتے ہیں کہ اسلام عورت کو پردے میں کیوں قید کرتا ہے؟ یا اسلام عورت کو مرد کے جتنا وراثت کا حقدار کیوں نہیں مانتا؟
لڑکی نے دلچسپی سے کہا: “ضرور، لیکن پہلے آپ میرے ایک سوال کا جواب دیجیئے۔”
اس شخص نے پوچھا: “کیا؟”
لڑکی نے کہا: “گائے، گھوڑا اور بکری ایک سا چارہ یعنی گھاس کھاتے ہیں، لیکن۔۔۔ گائے گوبر کرتی ہے، گھوڑا لید کرتا ہے اور بکری مینگنی کرتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟”
وہ شخص اس سوال سے چکرا گیا اور کھسیا کر بولا: “مجھے اس کا پتہ نہیں۔”
اس پر لڑکی بولی: “کیا آپ سمجھتے ہیں کہ، آپ خدا کے بنائے قوانین، پردہ، وراثت اور حلال و حرام پر بات کے اہل ہیں۔۔۔۔ جبکہ خبر آپ کو جانوروں کی غلاظت کی بھی نہیں ؟”
یہ کہہ کر لڑکی اپنی کتاب کی طرف متوجّہ ہوگئی اور مرد کھسیانا ہو کر سونے کی ایکٹنگ کرنے لگا
بس یہ ہی حال ہماری قوم کا بھی ہمیں اپنے گھر کی خبر تک نہیں ہوتی لیکن ہم دانشور اور سیاست دان بن کر دنیا کے ہر ایشو میں ٹانگ اڑانا فرض سمجھتے ہیں.