ہمارے ہاں اکثر بہنوں اور بیٹیوں کا جائیداد میں حصہ ہڑپ کر لیا جاتا ہے.
معمولی نوعیت کے جھگڑوں میں ہڈی پسلی توڑ دی جاتی ہیں اور جان سے بھی جاتی ہیں۔
بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں عورت کے لئیے تعلیم کا حصول بھی ناممکن ہے۔
اگر وہ بیوہ ہو گئی ہے یا طلاق یافتہ تو اس کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے اور وہ مرد کی مزید دست نگر بن جاتی ہے. ایک طلاق یافتہ کی شادی مشکل ترین کام ہے۔
وہ کہیں حصول رزق کے لئے جانا چاہتی یا خود کفیل ہونا چاہتی ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹیں ہیں۔کہیں ملازمت کرنے لگ جائے تو وہاں اسکا جینا مشکل ہے۔
سفر کرنے بس میں بیٹھ جائے تو وہاں اس کو مردوں کی ہوس زدہ نگاہوں کا سامنا رہتا ہے۔
تیزاب گردی کا نشان ہماری عورتیں بنتی ہیں۔
تو جناب یہ ہماری اکثریت عورت کے حقیقی مسائل ہیں جن کا شکار وہ ہوتی ہے۔
مجھے کل کے عورت مارچ میں اس عورت کا کوئی نمائندہ نظر نہیں آیا۔ وہاں پر کھانا گرم کرنے کی باتیں ہوئیں، ٹائر بدلنے کے لئے عورت کی حوصلہ افزائی، ٹانگیں کھول کر بیٹھنے کی آزادی مانگی گئی، گھٹیا مردوں سے نجات کی باتیں ہوئیں لیکن اس عورت کی بات نہیں ہوئی جس کی جائیداد پر بھائی قبضہ کر لیتے ہیں۔
اس عورت کی بات نہیں ہوئی جو خاوندوں کے تشدد کا نشانہ بنتی ہے تو یہ کون سی عورت کے لئے مارچ کیا گیا؟
یہ کون سی عورت کی وکالت کر رہی تھیں؟
ہمارے ملک میں عورت کے مسائل حقیقی ہیں ۔جن عورتوں نے ان کا وکیل بننے کی کوشش کی وہ اس کی اہل نہیں تھیں اور نہ ہی انہیں انکے مسائل کا ادراک ہے۔ اس کے لئے سنجیدہ خواتین کو میدان میں آنا چاہئیے کیونکہ ان خواتین نے تو اپنی جنس کا مذاق بنا دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ چند خواتین آپکی ٹھیکےدار بن بیٹھیں آپ خود میدان میں آئیں اور بولیں۔