عربی حکایت ہے ایک بوڑھے باپ نے اپنے بیٹے کو بلا کر ایک پرانی خستہ حال گھڑی دی اور کہا: بیٹا یہ گھڑی تمہارے پردادا کی ہے ۔۔ اس گھڑی کی عمر دو سو سال ہوگی ۔۔۔ یہ گھڑی میں تمہیں دینا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا ۔
اسے لیکر گھڑیوں کی دکان پر جاؤ اور ان سے پوچھو کہ وہ یہ گھڑی کتنے میں خریدیں گے ۔
وہ لڑکا جب واپس لوٹا تو کہنے لگا ۔۔ دکان دار گھڑی کی حالت دیکھتے ہوئے پانچ درھم سے زیادہ قیمت دینے کو تیار نہیں ۔
کہا: اب اسے وہاں لے جا کر بیچنے کی خواہش کا اظہار کرو جہاں نوادرات فروخت ہوتے ہیں ۔ وہ لڑکا جب وہاں سے واپس آیا تو بولا، وہ لوگ پانچ ہزار درھم دینے کو تیار ہیں ۔
یہ سن کر وہ شخص بولا: اب اسے عجائب گھر لے جاؤ اور فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کرو ۔
لڑکے نے واپس آکر کہا “وہ لوگ اسے پچاس ہزار درھم میں خریدنے کو تیار ہیں” ۔
یہ سن کر اس بوڑھے شخص نے بیٹے کو مخاطب کیا اور کہا : “بیٹا۔۔ گھڑی کی قیمت لگا کر میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا اپنی ذات کو اس جگہ ضائع نہ کرنا جہاں تمہاری قدر ومنزلت نا ہو ۔۔۔ تمہاری اہمیت کا اندازہ وہیں لگایا جائیگا جہاں پرکھنے کی سمجھ ہوگی ۔
دیکھا جائے تو بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کو ایسی جگہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں جہاں سوائے وقت ضائع کرنے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔۔ ساتھ ہی غیر ضروری طورپر غیرِ محل اپنی اہمیت کا احساس جتانا بھی درست نہیں ۔۔
استاذ محترم فرمایا کرتے تھے ” اپنی صلاحیتوں، خوبیوں کو صحیح سمت استعمال کرو ۔۔۔ ایسی جگہ خود کو مت تھکاؤ جہاں بدلے میں سوائے تھکاوٹ کے کچھ حاصل نہ ہو