علماء کو کاروبار اور ہنرمند ہونا چاہے
آج جب بھی کوئی عالم دین کاروبار کا سوچتا ہے تو کوئی اسے دین کے منافی قرار دیتا ہے “ اگر یہی کرنا تھا تو مدارس میں کیوں رہے؟؟ “
*اور اگر ہمت کرکے کوئی پہلا قدم اٹھا بھی لے تو ہم عصر یہ طعنہ دے کر خون جلاتے ہیں “ تدریس کے لئے قبولیت شرط ہے قابلیت نہیں ، اللہ نے قبول نہیں کیا انتہائی افسوس* “
اگر تاریخ اسلام پہ نگاہ دوڑائی جائے تو کاروبار کی شروعات اسلام کی شروعات سے ہی نظر آتی ہے ۔
پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں پال کر فروخت کیں ، حضرت ابوبکر نے کپڑا ، حضرت عمر نے اونٹ ، حضرت عثمان نے چمڑا اور حضرت علی نے خَود اور زر ہیں فروخت کرکے اپنے گھر کے کچن کو سہارا دیا ۔۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف نے کھجوروں سے ، حضرت ابو عبیدہ نے پتھروں سے ، حضرت سعد نے لکڑی کے برادے سے ،حضرت امیر معاویہ نے اون سے ، حضرت سلمان فارسی نے کھجور کی چھال سے ، حضرت مقداد نے مشکیزوں سے
اور حضرت بلال نے جنگل کی لکڑیوں سے اپنے گھر کی کفالت کا فریضہ سرانجام دیا ۔۔
امام غزالی کتابت کرتے ، اسحاق بن رہوے برتن بنا تے ، حضرت امام بخاری ٹوپیاں بناتے ، ، امام مسلم خوشبو بیچتے ، امام نسائی بکریوں کے بچے فروخت کرتے ، ابن ماجہ رکاب اور لگامیں مہیا فرماتے رہے ۔۔
امام قدوری نے مٹی کے برتنوں کا ، امام بخاری کے استاد حسن بن ربیع نے کوفی بوریوں کاکاروبار سنبھالا ۔
حضرت امام احمد ابن خالد قرطبی نے جبہ فروش کی ،
حضرت امام ابن جوزی نے تانبا بیچا ، حافظ الحدیث ابن رومیہ نے دوائیاں ، حضرت ابو یعقوب لغوی نے چوبی لٹھا ، حضرت محمد ابن سلیمان نے گھوڑے اور مشہور ومعروف بزرگ سری سقطی نے ٹین ڈبے بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کیا ۔
*محترم علماء کرام* !
*مدرسہ میں پڑھانا ، مسجد میں امامت کروانا یا تصنیف و تالیف میں مشغول ہونا اچھی بات ہے لیکن ہمارے اکابرین نے انہی کاموں کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کیا ہے تاریخ اٹھا کر دیکھئے ۔۔ دور نبوت سے لے کر دور صحابہ تک ، تابعین سے آئمہ کرام اور مجتہدین تک سبھی لوگ کاروبار سے وابستہ رہے* ۔۔
*لیکن افسوس ہم ذریعہ معاش کے لئے کچھ سوچنا بھی توکل کے برعکس سمجھتے ہیں*
*ہمارے محترم استاد فرمایا کرتے تھے صوفی محلے کی ایک مسجد پر نظر نہیں رکھنی نہ ہی امام کے مرنے کا انتظار کرنا ہے بلکہ محلے کی پچاس دکانوں پر نظر رکھنی ہے.یعنی ان کی اس بات کا مقصد تھا کہ علماء اپنے آپ کو صرف مسجد و مدرسہ تک جام کر کے نہ رکھیں بلکہ دین کے اور میدان بھی ہیں.وہاں جا کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خدمات سرانجام دیں*ویسے بھی علماء کرام ماشاء اللہ کثیر تعداد میں فراغت حاصل کر رہے ہیں لیکن ہنرمندی سے بلکل نا آشنا ہیں*.
*شیخ سعدی شیرازی کا قول ہے اپنی اولاوں کو ہنر سیکھاؤ لوگ تمھارے پیچھے چلیں گے.لیکن افسوس آج ہنر سیکھنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے*
*اگرآج ہمارے اندر حافظ اور قاری اور مولانا کی سند کے ساتھ کوئی ہنر ہوتا تو آ ج ہم ان پڑھ جاہل مسجد کے صدر اور کمیٹی کی جی حضوری کی ضرورت نہیں کرنی پڑتی اگر ہمارے پاس ہنر ہوتا تووہ ہماری غلامی کرتاہم نہیں آج ہم غلامی اسلئے کررہےہیں اگرامامت چھوٹ جائے توکیاکریں گےمدرسہ چھوٹا توکیاکریں گے بس یہی ہماری کمزور ی ہےاگرہنرہوتاتو جاہل سب ہماراپیرپکڑتے امامت کی بھیک مانگتے نماز پڑھنا فرض ہے ناکہ پڑھاناتم بھی کارو بار کرتے ہو ہم بھی کرتے ہیں لاو امام کہاں سے لاتے ہو ہر دوسرے تیسرے سال امام نہیں بدلتا امام کو نکالنے کے لیے ہزاروں دفعہ سونچنا پڑتا آ ج سے ہی فیصلہ کریں کی ہم کچھ ہنر اپنے پاس رکھیں 8و10ہزارمیں کیاہوگا اگر اپنا کاروبار ہوگا خدا کے سوا کسی کی غلامی نہیں کرنی پڑے گی
پیش کش معین ملت معین القادری چمن گنخ کانپور
❂۩✮نسیم حسین لکھیم پوری ✮۩❂: