****** محافلِ شیخ ******
از: حضرت امیر محمد اکرم اعوان رحمةاللہ علیہ
*(قسط نمبر 17)*
*سوال* : ابھی تک میں یہ سمجھتا رہا کہ ہمارا ذکر جو ہم کرتے ہیں پاس انفاس ہے اور یہی قلبی ذکر ہے۔جناب حافظ صاحب نے بھی مرشد آباد اور کئی مقامات میں اسی کو “پاس انفاس” اور ذکر قلبی فرمایا۔مولانا حسین احمد مدنیؒ کے ایک مکتوب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاس انفاس علیحدہ اور ذکر قلبی علیحدہ ہے۔وضاحت فرمائیے۔
*جواب* : ہر سلسلہ کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے تمام سلاسل تصوف میں پہلے سانس کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے پھر سانس کی طرف سے توجہ ہٹا کر صرف قلب کی دھڑکن پہ مراقبہ کرکے کوشش کی جاتی ہےکہ لطائف روشن ہوں۔بعض سلاسل میں پاس انفاس سے قبل ذکر جہر پھر لسانی،پھر پاس انفاس اور بعد ازاں توجہ الی القلب کا طریقہ رائج ہے۔اسطرح ایک لطیفہ کیلئے دو سال کا عرصہ درکار ہے۔جن حضرات نے بہت جلدی کیا انھیں بھی دو سال عموماً ایک لطیفہ کے حصول میں صرف کرنا پڑے۔یہ کمال نسبت اویسی کا ہے کہ ایک نگاہ میں سارے لطائف روشن ہو جاتے ہیں۔ہمارے سلسلہ میں مراقبہ بر قلب کی جگہ پہلا مراقبہ ربط اور مقام احدیت کا ہے۔
کیا آپ کو یہ عجیب محسوس نہیں ہوئی کہ تمام سلاسل میں لاکھوں میں صرف چند افراد کی کو لطائف کرائے جاتے رہے۔ورنہ سب کو ذکر لسانی اور تسبیحات ہی بتائی جاتی رہیں اور تبع تابعین کے بعد یہ فیوضات شیخ المکرم(مولانا اللّٰہ یار خانؒ) سے جاری ہوئے کہ ہر آنے والا لطائف پر توجہ حاصل کر کے گیا۔حالانکہ سنت یہی طریقہ تھا۔مگر خیرالقرون کے بعد یہ سعادت حضرتؒ اور سلسلہ عالیہ کے حصہ میں آئی۔اب یہ اللہ کی مرضی کہ کس کو کیا عظمتیں بخشتا ہے اور اس سے کیا کام لیتا ہے۔سو حافظ صاحب نے درست فرمایا اور آپ نے درست سمجھا۔
*سوال* : ذکر کے دوران چھینک آجائے تو کیا کرنا چاہیے؟
*جواب* : ذکر کے دوران اگر چھینک آجا ئے تو چھینک کر دوبارہ ذکر شروع کر دینا چاہیے۔
============(باقی آئندہ ان شآءاللہ)
انتخاب، اجیرِ اویسیہ