سورہ لقمٰن آیت نمبر 15
وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ — ۱۵
ترجمہ:
اور اگر وہ تم پر یہ زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی کو (خدائی میں) شریک قرار دو جس کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں تو ان کی بات مت مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے رہو، (٨) اور ایسے شخص کا راستہ اپناؤ جس نے مجھ سے لو لگا رکھی ہو۔ (٩) پھر تم سب کو میرے پاس لوٹ کر آنا ہے، اس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
تفسیر:
8: دین کے معاملے میں اگر والدین کوئی غلط بات کہیں تو ان کی بات ماننا تو جائز نہیں ہے ؛ لیکن ان کی بات رد کرنے کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جو ان کے لئے تکلیف دہ نہ ہو، یا جس سے وہ اپنی توہین محسوس کریں، بلکہ نرم الفاظ میں ان کو بتا دینا چاہیے کہ میں آپ کی یہ بات ماننے سے معذور ہوں اور صرف اتنا ہی نہیں اپنے عام برتاؤ میں بھی ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرتے رہنا چاہیے، مثلاً ان کی خدمت کرنا، ان کی مالی امداد کرنا، وہ بیمارہوجائیں تو ان کی تیمار داری کرنا وغیرہ۔
9: چونکہ والدین غلط راستے پر ہیں، اس لئے ان کا غلط راستہ اپنانا جائز نہیں ؛ بلکہ راستہ انہی کا اپنانا چاہیے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قائم کیا ہوا ہو، یعنی وہ اسی کی عبادت اور اطاعت کرتے ہوں، اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دین پر عمل بھی صرف اپنی سمجھ اور رائے سے نہیں کرنا چاہیے ؛ بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کے بارے میں یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے لولگائی ہوئی ہے، ان کو دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے دین پر کس طرح عمل کیا، اور پھر انہی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، اسی لئے کہا جاتا ہے اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن و حدیث کے صرف ذاتی مطالعے پر کوئی ایسا نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے، جو امت کے علماء اور بزرگوں کی تشریح کے خلاف ہو۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی