مینڈکوں کا ایک گروہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ان میں سے دو بے دھیانی میں ایک گڑھے میں جا گرے۔
باہر کھڑے مینڈکوں نے دیکھا کہ گڑھا ان دو مینڈکوں کی استطاعت سے زیادہ گہرا ہے تو انہوں نے اوپر سے کہنا شروع کر دیا۔ ہائے افسوس، تم اس سے باہر نہ نکل پاؤ گے، کوششیں کر کے ہلکان مت ہونا، ہار مان لو اور یہیں اپنی موت کا انتظار کرو۔
ایک مینڈک کا یہ سب کچھ سن کر دل ہی ڈوب گیا۔ اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ چند کوششیں تو کیں مگر اس جان لیوا صدمے کا اثر برداشت نہ کر پایا اور واقعی مر گیا۔
دوسرے کی کوششوں میں شدت تھی اور وہ جگہ بدل بدل کر، جمپ لگاتے ہوئے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اوپر والے مینڈک پورے زور و شور سے سیٹیاں بجا کر، آوازے کستے ہوئے، اسے منع کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ مت ہلکان ہو، موت تیرا مقدر بن چکی ہے۔ لیکن مینڈک نے اور زیادہ شدت سے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور واقعی میں باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔
سارے مینڈک اس کے گرد جمع ہو گئے اور پوچھنا شروع کیا کہ وہ کیسے باہر نکلا تو سب کو یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ یہ والا مینڈک تو کانوں سے محروم اور بہرا تھا۔
مینڈک سارا وقت یہی سمجھ کر باہر نکلنے کیلیئے اپنا سارا زور لگاتا رہا تھا کہ باہر کھڑے ہوئے سارے مینڈک اس کے خیر خواہ اور دوست ہیں، جو اس کی ہمت بندھوا رہے ہیں اور جوش دلا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ سارے اس کی ہمت توڑنے اور باہر نکلنے کے عزم کو ختم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔
نتیجہ: کسی بھی تنقید پر بددل مت ہوں بلکہ اس تنقید کے نشتر کی سیڑھیاں بنا کر کامیابی کی منزل کی جانب بڑھتے رہیں۔