جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی ” باپ ” مرنا شروع ہوجاتا ہے .
جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اس قیامت کو میں کیسے سہوں گا ؟
جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے ” حجت ” پوری کی جانے لگے تو “بوڑھا شخص” تو زندہ رہتا ہے پر اسکے اندر کا ” باپ ” مرنا شروع ہوجاتا ہے .
باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولاد پر اسکا حق قائم ہے ۔
جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا ، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پر پھر بھی اسلئے ڈانٹا کہ کہیں نا سمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کر بیٹھے .
ماں کی محبت تو یہ ہے کہ پیاس لگی (پیار آیا) تو پانی پی لیا پر باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی تو خود کو اور اتنا زیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مر گئی .
باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اسکے اور کچھ نہیں مانگتی کہ ” باپ ” کو زندہ رکھا جاۓ، پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو،
اگر اسکے اندر کا ” باپ ” زندہ ہے تو یقین جانیئے اسے زندگی میں اور کسی شے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے،
اگر آپ کے والد صاحب سلامت ہیں تو خدارا انکے اندر کا ” باپ ” زندہ رکھئیے،
یہ اس “بوڑھے شخص” کا آپ پر حق اور آپ پر قرض ہے ۔
جسے آپ نے فرض سمجھ کر ادا کرنا ہے۔
اگر زندہ نہیں ہیں، تو ان کی مغفرت کی دعا ہر نماز کے بعد کیجئے اور اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ و خیرات کیجئے، تاکہ اس کا ثواب ان تک پہنچ سکے۔