فقیہ رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گناہ دو طرح کے ہیں ایک وہ جو اللہ تعالی اور اس کے بندے کے درمیان ہیں اور ایک وہ جو ایک بندہ اور دوسرے بندوں کے درمیان ہیں۔ یعنی ایک گناہ حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے حقوق العباد سے۔
پہلی قسم کے گناہ کی توبہ زبان سے استغفار کرنا اور دلی ندامت کا اظہار کرنا اور آئندہ کے لئے اس گناہ کے نہ کرنے کا عزم کرنا ہے۔ اس طرح سے توبہ کرے گا تو اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی اللہ تعالی اس کو معاف فرما دیں گے۔ البتہ اگر فرائص چھوٹے ہوئے ہوں تو اتنی توبہ کافی نہیں جب تک کہ ان کی قضا نہ کرے اور ندامت کا اظہار اور استغفار نہ کرے ۔
اور دوسری قسم کے گناہ کی توبہ تب مفید ہے جب صاحب حق کا حق ادا کرے یا اسے راضی کرے اور وہ اسے معاف کر دے۔ بعض تابعین سے منقول ہے کہ ایک گناہ گار گناہ کرتا ہےاپھر اس پر نادم ہو کر استغفار کرتا رہتا ہے حتٰی کہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے تو شیطان کہتا ہے اے کاش! میں نے اسے گناہ میں مبتلا ہی نہ کرتا .
حضرت ابوبکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ جلد بازی نہ کرنا ہر کام میں اچھا ہے سوائے تین باتوں کے – اوّل نماز میں جب کہ مستحب وقت ہو جائے – دوسرے میت کے دفن کرنے میں
– تیسرے گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے میں.
تفسیر ابن کثیر
باب: توبہ کا بیان
صفحہ 133