قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں گفتگو کے آداب کے بارےمیں واضح ارشادات موجود ہیں، جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ آواز نہ بہت زیادہ اونچی نہ ہو اور نہ ہی بہت زیادہ پست ،اگر سامعین کی تعداد زیادہ ہو اور آہستہ آواز میں ان تک بات پہنچانا ممکن نہ ہو تو ضرورت کے مطابق آواز کو اونچا رکھا جائے،گفتگو کی مناسبت سےآواز میں مناسب اتار چڑھاؤ رکھا جائے، بے موقع چیخنا اورچلانا وقار کے خلاف ہے، حضرت لقمان علیہ السلام نےاپنے بیٹے کو آواز پست رکھنے کی جو نصیحت فرمائی تھی، قرآن کریم نے اسے نقل کیا ہے:
وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ [ لقمان : ۱۹]
ترجمہ: اور اپنی آواز کو پست کر ،بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آوازہے۔
2۔ گفتگوصاف اور ٹھہر ٹھہر کر ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو تم لوگوں کی طرح لگاتار، جلدی جلدی نہیں ہوتی تھی، بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا، پاس بیٹھنے والے اچھی طرح سے ذہن نشین کر لیتے تھے، بخاری شریف میں ہے کہ: آپ ﷺ اتنا واضح اور ٹھہر ٹھہر کر گفتگو فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ کے الفاظ گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔
3۔ سننے والوں کی ذہنی سطح کی رعایت کرتے ہوئے بات کو دہرایا جاسکتا ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (بعض مرتبہ) کلام کو (حسب ضرورت) تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپ کے سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں۔
4۔ ابتدا سے لے کر انتہا تک گفتگو منہ بھر کے ہو، الفاظ کاٹ کاٹ کر گفتگو نہ کی جائے۔
5۔ گفتگومطلب کو واضح کرنے والی اور معنی خیزہو،مبہم اور غیر واضح گفتگو سے بچا جائے۔
6۔ مخاطب کو متوجہ کرنے اور گفتگو کو اس کے دل و دماغ میں پیوست کرنے کے لیے ہاتھ کے ذریعہ سے مناسب اشارے اورچہرے کے پروقارتاثرات سے کام لیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں تکلف سے اجتناب کیا جائے، رسول اللہ ﷺتعجب خیز بات پر ہاتھ پلٹ لیتے تھے، آپ ﷺگفتگو کے ساتھ ہاتھوں کو بقدر ضرورت حرکت دیتے تھے، اگر کسی جانب اشارہ کرنے کی ضرورت پیش آئے تو پورے ہاتھ سے اشارہ کیا جائے ، صرف انگلیوں سے اشارہ کرنا مناسب نہیں، آپ ﷺ کبھی کبھار داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصے پر مارتے تھے۔
7۔اگر دورانِ گفتگو کوئی خوش گوار بات آئے تو مسکرا دیا جائے؛ کیوں کہ آپ ﷺ بھی پُرلطف بات پر تبسم فرمالیتے تھے ، جس سے آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوجاتے تھے،قہقہہ نہ لگایا جائے، یہ وقار کے خلاف ہے، آپ ﷺاونچی آواز سے قہقہہ نہیں لگاتے تھے۔
امام ترمذی نے اپنی کتاب “شمائل ترمذی” میں نبی کریم ﷺ کی گفتگو کی کیفیت کو تفصیل سے بیان کیا ہے، چناں چہ وہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: انہوں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے (جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اکثر بیان فرماتے ہیں) عرض کیا کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کی کیفیت مجھ سے بیان فرمائیے، انہوں نے فرمایا کہ: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (آخرت کے) غم میں متواتر مشغول رہتے ۔ (ذات وصفات باری تعالیٰ یا امت کی بہبود کے لیے) ہر وقت سوچ میں رہتے تھے، ان امور کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بے فکری اور راحت نہ ہوتی تھی ، اکثر اوقات خاموش رہتے تھے بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام گفتگو ابتدا سے انتہا تک منہ بھر کر ہوتی تھی، (یہ نہیں کہ نوک زبان سے کٹتے ہوئے حروف کے ساتھ آدھی بات زبان سے کہی اور آدھی متکلم کے ذہن میں رہی، جیساکہ موجودہ زمانہ کے متکبرین کا دستور ہے) جامع الفاظ کے ساتھ (جن کے الفاظ تھوڑے ہوں اور معانی بہت ہوں) کلام فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام ایک دوسرے سے ممتاز ہوتا تھا نہ اس میں فضولیات ہوتی تھی اور نہ کو تاہیاں کہ مطلب پوری طرح واضح نہ ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سخت مزاج نہ تھے، نہ کسی کی تذلیل فرماتے تھے، اللہ کی نعمت خواہ کتنی ہی تھوڑی ہو اس کو بہت بڑا سمجھتے تھے ،اس کی مذمت نہ فرماتے تھے، البتہ کھانے کی اشیاء کی نہ مذمت فرماتے نہ تعریف فرماتے ،دنیا اور دنیاوی امور کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی غصہ نہ آتا تھا ، البتہ کسی دینی امر اور حق بات سے کوئی شخص تجاوز کرتا تو اس وقت آپ کے غصہ کی کوئی شخص تاب نہ لا سکتا تھا اور کوئی اس کو روک بھی نہ سکتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ اس کا انتقام نہ لے لیں ۔ اپنی ذات کے لیے نہ کسی پر ناراض ہوتے تھے نہ اس کا انتقام لیتے تھے ،جب کسی وجہ سے کسی جانب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ فرماتے ،جب کسی بات پر تعجب فرماتے تو ہاتھ پلٹ لیتے تھے اور جب بات کرتے تو (ہاتھ) ملا لیتے اور کبھی داہنی ہتھیلی کو بائیں انگوٹھے کے اندرونی حصہ پر مارتے۔اور جب کسی پر ناراض ہوتے تو اس سے منہ پھیر لیتے اور بے توجہی فرماتے اور یا درگزر فرماتے۔ اور جب خوش ہوتے تو حیا کی وجہ سے آنکھیں گویا بند فرما لیتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم ہوتی تھی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندان مبارک اولے کی طرح چمکدار سفید ظاہر ہوتے تھے۔
*آداب مجلس کا بیان*
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایاکہ
’’یایھا الذین آمنوا اذا قیل لکم تفسحوا فی المجلس فافسحوا یفسح اللہ لکم واذا قیل انشزوا فانشزوا یرفع اللہ الذین اٰمنوامنکم والذین اوتوا العلم درجات‘‘۔ (پارہ ۲۷؍رکوع ۲)
ترجمہ:۔اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دے دو تو تم لوگ جگہ دے دو ۔اللہ تعالیٰ تم کوجگہ دے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوجائو ۔ اللہ تم میں علم والوں اور ایمان والوں کے درجات کو بلند فرمادے گا۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص ایسا نہ کرے کہ مجلس سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے بلکہ آنے والے کے لئے ہٹ جائے اور جگہ کشادہ کردے۔ (بخاری وغیرہ)
مجلسوں میں ہر مرد وعروت کو ان چند آداب کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
۱) کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں مت بیٹھو۔ (ابودائود )
۲) کوئی مجلس سے اٹھ کر کسی کام کو گیا اور یہ معلوم ہے کہ وہ ابھی آئے گا تو ایسی صورت میں اس جگہ کسی کو بیٹھنا نہیں چاہییٔ وہ جگہ اسی کا حق ہے۔ (ابو دائود ج۲؍ص۳۱۶)
۳)ا گر دو شخص مجلس میں پاس پاس بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں تو ان دونوں کے بیچ میں جاکر نہیں بیٹھ جانا چاہییٔ ۔ہاں البتہ وہ دونوں اپنی خوشی سے تمہیں اپنے درمیان میں بٹھائیں تو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (ابودائود ج۲؍ص۳۱۷)
۴)جو تم سے ملاقات کے لئے آئے تو تم خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ا س کے لئے ذرا اپنی جگہ سے کھسک جائو جس سے وہ یہ جانے کہ میری قدر وعزت کی ۔
۵)مجلس میں سردار بن کر مت بیٹھو بلکہ جہاں بھی جگہ ملے بیٹھ جائو ۔ گھمنڈ اور غرور اللہ تعالیٰ کو بے حدنا پسند ہے اور تواضع وانکساری اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے ۔
۶)مجلس میں چھینک آئے تو اپنے منھ پر اپنا ہاتھ یا کوئی کپڑا رکھ لو اور پست آواز سے چھینکواور بلند آواز سے ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہواور حاضرین مجلس جواب میں ’’ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ‘‘ کہیں۔
۷)جمائی کو جہاں تک ہو سکے روکو،اگر پھر بھی نہ رکے تو ہاتھ یا کپڑے سے منھ ڈھانک لو۔
۸)بہت زور سے قہقہہ لگا کر مت ہنسو کہ اس طرح ہنسنے سے دل مردہ ہوجاتا ہے۔
۹)مجلسوں میں لوگوں کے سامنے تیوری چڑھا کر اور ماتھے پر بل ڈال کر ناک چڑھا کر مت بیٹھو کہ یہ گھمنڈی لوگوں اور متکبروں کا طریقہ ہے بلکہ نہایت عاجزانہ انداز سے غریبوں کی طرح بیٹھو کوئی بات موقع کی ہو تو لوگوںسے بول چال بھی لو ۔لیکن ہر گز ہرگز کسی کی بات مت کاٹو،نہ کسی کی دل آزاری کرو،نہ کوئی گناہ کی بات بولو۔
۱۰)مجلس میں خبردار خبردار کسی کی طرف پائوں نہ پھیلائوکہ یہ بالکل ہی خلاف ادب ہے۔
مجلس سے اٹھتے وقت کی دعا
تاجدار مدینہ ،سرور قلب و سینہ ارواحنا فداہ ا نے فرمایا کہ جو شخص مجلس سے اٹھ کر تین مرتبہ یہ دعا پڑھ لے گا ۔اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دے گا اور جو شخص مجلس خیر اور مجلس ذکر میں اس دعا کو پڑھے گا ۔اللہ تعالیٰ اس کے لئے اس خیر پر مہر کردے گا ۔
(ابودائود ج۲؍ص۳۱۹مجتبائی)
سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَااِلٰہَ اِلّاَ اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ۔
ترجمہ:۔اے اللہ ! ہم تیری تعریف کے ساتھ تیر ی پاکی بیان کرتے ہیں،تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیرے دربار میں توبہ کرتا ہوں۔
فقط واللہ اعلم
مفتی ڈاکٹر سلمان صاحب لاہور
29جنوری2023