ابو مطیع اللہ حنفی
یہ بھی ذہن میں رکھنا کہ بچوں کو ادب کے ساتھ بولنا سکھائیں بعض بچے ’’تو اور تم‘‘ کہہ کر بات کرتے ہیں ان کو سمجھائیں کہ بیٹا آپ کہنے سے محبت بڑھتی ہے۔ لہٰذا چھوٹوں کو بھی آپ کہو‘ بڑوں کو بھی آپ کہو‘ ہاں بچہ کہے تو اس کو سمجھائیں کہ جی ہاں کہنے میں زیادہ محبت ہے اس طرح چھوٹی چھوٹی باتیں بچہ گود میں سیکھتا ہے اور پھر وہ اسے یاد رہتی ہیں یارکھنا کہ بچپن کی باتیں انسان کو بچپن میں بھی نہیں بھولا کرتیں ساری زندگی یاد رہتی ہیں اس لئے بچوں کی تربیت اچھی کریں۔ یہ تو طے شدہ بات ہے کہ جو گھاس جنگلوں میں پیدا ہو وہ باغ کی گھاس کی طرح نہیں ہوتی کہ جنگلوں کی گھاس میں کوئی خوبصورتی نہیں ہوتی تربیت نہیں ہوتی اور باغ کے گھاس کے اندر تو خوبصورتی اور جمال ہوتا ہے۔ اسی طرح ان پڑھ ما ں کے بچے جو پلے ہوئے ہوں۔ وہ جنگلوں کے گھاس کی مانند ہوتے ہیں اور جو پڑھی لکھی نیک ماں کے پلے ہوئے بچے ہوں وہ باغ کے گھاس کی مانند ہیں تو ماں کو چاہئے کہ بچوں کی تربیت پر زیادہ توجہ دے۔
جھو ٹ سے بچئے
یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ کبھی بھی اپنے بچوں کو بے جا ظالمانہ دھمکی نہ دیں کئی عورتیں بچوں کو دھمکاتی ہیں۔ گھر سے نکال دوں گی میں ابھی سوچتا ہے امی بھوت کو بلالوں گی میں فلاں فلاں کو بلالوں گی۔ اس قسم کے ڈر بچے کو نہ بتائیں اس لئے کہ بھوت کو بلاتی تو ہے نہیں گھر سے نکالتی تو ہے نہیں‘ تو بچے ابتداء سے متاثرہوتے ہیں۔ بعد میں اپنی امی کو جھوٹا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ تو اس کو ڈرا رہی ہیں۔ وہ دل ہی دل میں آپ کو جھوٹا سمجھ رہا ہے جب ایک بات میں آپ کو جھوٹا سمجھا تو ہر بات میں آپ کے بارے شک میں پڑ جائے گا۔ امی تو جھوٹ بھی بولتی ہیں تو گویا آپ نے بچے کو جھوٹ بولنے میں مدددی۔ اسی طرح بچے سے کوئی جھوٹا وعدہ نہ کریں۔ ایسا وعدہ کریں جس کو آپ پورا کر سکیں اگر نہیں کر سکتیں تو کبھی جھوٹا وعدہ نہ کریں۔ بچہ جھوٹ بولنے کا عادی بن جائے گا اور اس کا گناہ آپ کو ہوگا اس لئے اگر بچے کو ڈرانا بھی ہو تو اللہ سے ڈرائیں کہ بیٹا اللہ ناراض ہوتے ہیں۔ اس چیز سے اللہ ناراض ہوتے ہیں بس ایک اللہ کا خوف اس کے دل میں بٹھائیے کسی اور کا خوف دل میں بٹھا نے کی کیا ضرورت ہے یہ اللہ کا خوف ایک ایسی نعمت ہے دل میں بیٹھ گیا تو اللہ کے خوف سے شریعت کی جو بات بھی ہے بچہ اس پر عمل کرتا چلا جائے گا۔
تالیف⇦:- محمد ریاض جمیل
✍ابو مطیع اللہ