Home سوچئیے یہ سارا گند جاہل مولویوں کا پھیلایا ہوا ہے ؟

یہ سارا گند جاہل مولویوں کا پھیلایا ہوا ہے ؟

0
39

فیس بک کی مشہوری سے قبل دانشوروں کا واحد ٹھکانہ نائی کی دکان ہوا کرتی تھی ، جہاں آپکو کھیلوں سے لیکر سیاست اور دفاع سے لیکر معیشت تک کے ماہرین ایک ہی چھت تلے بیٹھے ملتے تھے ، خیر سے جس نائی کے پاس میں جایا کرتا تھا وہاں با یک وقت کئی مباحثہ جاری رہتے تھے حالانکہ دیوار پر واضح جلی حروف سے لکھا گیا تھا کہ ” یہاں سیاسی بحث کرنا منع ہے ” . لیکن ہم ٹھرے اس قوم کے مجاہد جو وہاں پیشاب کرتے ہیں جہاں کرنا منع ہوتا ہے وہاں کچرا پھینکتے ہیں جہاں کچرا پھینکنے پر خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہوں لہذا پاکستان کی کرکٹ میں شکست سے لے کر کراچی کے حالات اور بڑھتے قرضوں تک کی باتیں نائی کی دکان پر ہی ہوا کرتی تھیں . ایسے میں ایک روز ٹی شرٹ اور نیکر پہنے نوجوان دکان میں داخل ہوا حسب معمول پاکستان کے کشیدہ حالات پر بحث جاری تھی ، ایسے میں وہ نوجوان گویا ہوا کہ ” یہ سارا گند جاہل مولویوں کا پھیلایا ہوا ہے “

اپنے تئیں تو انھوں نے تاریخ کا سنہری جملہ کہا تھا پر دکان میں لمحۂ بھر کو سکوت چھا گیا ، ار پھر ایک شخص گویا ہوا ” وہ کیسے ؟ “

” یار دیکھو ملک میں کتنی دہشتگردی ہورہی ہے . دھماکہ کون کر رہا ہے ؟ پڑھے لکھے لوگ مولویوں نے خراب کردئے “اس وقت میں چونکہ بال کٹوانے میں مصروف تھا لہذا یہ تو نہ دیکھ سکا کہ اس نوجوان کی بات پر اسے کس نے جواب دیا پر جو جواب دیا گیا وہ کچھ یوں تھا کہ ” دہشتگردی ہورہی ہے تو مولوی جاہل کیسے ہوا ؟ ” یہ بم گولیاں بارود مولوی بناتے ہیں ؟ سمگل ہوکر دنیا بھر سے اگر یہ چیزیں پاکستان آتی ہیں تو کیا یہ مولوی کرتے ہیں ؟ دہشتگردی ہمیشہ نا انصافی اور خراب معیشت کے بطن سے جنم لیتی ہے کیا اس ملک کی معیشت مولوی چلا رہے ہیں ؟ حکومت مولوی چلا رہے ہیں ؟ کیا مسجد کا مولوی سپریم کورٹ کا جج بن کر غلط فیصلے دے رہا ہے ؟ غریب چور کو سلاخوں کے پیچھے اور امیر چور کو ایوانوں پر مولوی نے بٹھا رکھا ہے ؟ اور پھر یہ جاہلیت کا کیا معیار بنا کر رکھا ہے آپ نے ؟ “

اس پر وہ نوجوان گڑ بڑایا اور گھسا پٹا جملہ کہا کہ ” دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور مولوی اب تک حلال حرام کے چکر میں پڑا ہوا ہے یہ جاہلیت نہیں تو اور کیا ہے “” اچھا تو یہ جاہلیت ہے ؟ خلا میں راکٹ بھیجنا مولوی کے سلیبس میں ہوتا ہے ؟ سپیس سائنٹسٹ بننا درس نظامی میں سکھاتے ہیں یا یونیورسٹیز میں ؟ تو پھر یہ لعنت ملامت یونیورسٹیز کے اساتذہ کے بجائے مولوی پر کیوں ؟ آپ لوگوں نے مولوی کو کمپیوٹر کا ری سائیکل بن اور ڈرائینگ روم کا ڈسٹ بن بنا رکھا ہے جس پر اپنی غلطیوں نالائقیوں کا گند انڈیلتے رہتے ہیں پر کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ہیں . چلو دہشتگردی کی بات بھی کرلیں تو یہ بلوچستان اور کراچی میں کون سے مولوی بندے مار رہے ہیں ؟ جس طرح یونیورسٹیوں سے پڑھے لوگ سمگلر ، ڈاکو اور اربوں کا خزانہ لوٹ کر کھا جاتے ہیں ویسے ہی گندے انڈے مولوی کا روپ میں بھی ہوسکتے ہیں پر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کلین شیو چور ہو تو اسے انفرادی طور پر چور کہا جاۓ جبکہ اگر داڑھی والا چوری کرے تو اسکی درسگاہ و پیشے سے لیکر اسلام تک کو مورد الزام ٹہرا دیا جاۓ ؟ “

اسی اثنا نیکر پہنے نوجوان کا موبائل بج اٹھا اور وہ دکان سے باھر نکل گیا اور پھر واپس نہیں آیا ، اس دوران میں بھی بل کٹوا کر فارغ ہو چکا تھاتو سوچا ذرا اس مولوی سے تو مل لوں جس نے آج مولوی بیزار کے چودہ طبق روشن کردئے ، پر پیچھے دیکھ کر مجھے سخت حیرانی ہوئی کہ یہ جواب کسی مولوی نے نہیں بلکہ کانوں میں ہیڈ فون لگائے ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس ایسے نوجوان نے دئے تھے جس کا حلیہ کہیں سے بھی ” مولویانہ ” نہیں تھا . اسے دیکھ کر ایک عجیب سی خوشی اور دلی اطمینان ہوا اور بنا کوئی بات کئے دکان سے باھر نکل آیا ..

یہ تو تھا کچھ سال قبل کا واقعہ ، یہ سب آپکے گوش گذارنے کیوجہ فیس بک پر لکھی ایک تحریر ہے جس میں ایک شخص کا کہنا تھا کہ “کسی قوم کے زوال کی اس سے بھی بڑی کوئی نشانی ہو سکتی ہے کہ منبر پر بیٹھا شخص جو شاید ہی کبھی سکول گیا تھا گا کر یا رو کر لمبی لمبی پھینک رہا ہو اور گریجویٹس، ماسٹرز، ٹیچرز، بیرسٹرز، انجینئرز، ڈاکٹرز، پی ایچ ڈیز سر جھکائے اتنی مدہوشی کے عالم میں سن رہے ہوں کہ ان ذہن میں کوئی سوال ہی نہ اٹھے “

یعنی کم علمی اور بغض کا عالم تو دیکھیں کہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والوں پر اسلئے تنقید کیجائے کہ وہ ایک دوسرے کے علوم سے واقفیت کیوں نہیں رکھتے انہیں اتنا تو معلوم تو ہونا چاہئے کہ منبر پر بیٹھا شخص اسلئے بول رہا ہوتا ہے کہ اسکے دامن میں درس نظامی کی آٹھ سے دس سالہ تعلیم ہوتی ہے جس سے انجنیئر ڈاکٹر سائنسدان محروم ہوتا ہے .ٹھیک ویسے ہی جیسے ایک ڈاکٹر کے سامنے انجنیئر خاموش ہوتا ہے اور چپ چاپ بنا کوئی سوال کئے اس کا لکھا نسخہ استعمال کرتا ہے . جیسے گھر بناتے ہوئے مزدور یا مستری کے سامنے پی ایچ ڈی پروفیسر خاموش ہوتا ہے . نائی کے سامنے انجنیئر خاموش ہوتا ہے ، یہ ایک آفاقی قانون ہے کہ ہر شخص / طبقہ / فن ایک کا اپنا کارکردگی کا میدان ہوتا ہے ہر ایک کے علم کی اپنی اہمیت ہوتی ہے .

کل کو کیا آپ ایک سائنسدان کو اسلئے ملامت کرو گے کہ وہ بال کاٹنا کیوں نہیں جانتا ؟ بڑے بڑے راکٹ تو بنا لیتا ہے پر اپنے لان کی دیوار بناتے ہوئے ” نالائق” 50 بلاک نہیں لگا سکتا ؟ یا ایک ڈاکٹر کینسر کا زخم تو کاٹ لیتا ہے پر ” نالائق ” اپنے لان کا گھاس کاٹنا نہیں جانتا ؟

اور پھر جہاں تک مولوی کے خطبہ کی بات ہے تو جناب وہ خطبہ ہفتہ میں ایک روز ہوتا ہے ، اور پاکستانیوں کی اکثریت اس ایک روز ہی کی نمازی ہے اور ” اکثریت ” اس وقت مسجد میں داخل ہوتی ہے جب خطبہ ختم ہونے والا ہو یعنی 6 دن آپ ” دنیاوی ” علوم و امور میں گھرے رہتے ہو محض ایک دن کچھ منٹ مولوی کے پاس بیٹھ کر آپکو اپنا علم حقیر لگنے لگے تو جناب پھر مولوی کو نہیں بلکہ آپکو اپنے علم کو کھنگالنے کی ضرورت ہے اور ایسے ” مولوی ” کو سلام کرنا بنتا ہے کہ جسکے سامنے 6 دن انسان کو خود میں مصروف رکھنے والے دنیا اور اسکے علوم مولوی کے کچھ منٹ کے خطبہ سامنے ڈھیر ہوجائیں

تحریر : ملک جہانگیر اقبال

NO COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here