انسان کا بچہ پالنا کوئی آسان کام نہیں۔ رات بھر بچے کو کبھی دودھ چاہیے، کبھی باتھ روم لے کر جانا ہے۔ کبھی کمبل ٹھیک کروانا ہے۔ کبھی کوئی ڈراؤنا خواب اور وہ ماں کا قرب چاہتا ہے۔ دن بھر انکے پیچھے بھاگنا۔ ان گنت بار کی سمجھائی ہوئی بات پھر سے سمجھانا۔ بہن بھائیوں کے نہ ختم ہونے والے جھگڑوں پر منصف بنے رہنا۔ ایک کو کچھ کھانا ہے اور دوسرے کو کچھ اور۔ کبھی فرش پر دودھ گرا دیا ، کہیں کھلونے کمرے میں بکھیر دیے۔ کسی دیوار پر نقش نگاری کر دی، کسی میز پر نشان ڈال دیا۔
مشکل ہے۔
آپ تھک جاتی ہیں۔
آپ میں سے “اپنا آپ” کھویا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
زندگی وہی لگی بندھی سی روٹین؛ کھلانے، پہنانے، دھونے دھلانے میں غرق ہوتی لگتی ہے۔
نماز قرآن کے لئے دوڑتے بھاگتے آتی ہیں۔
باقیوں کو دیکھ کر خود کو ملامت کرتی ہیں۔
آپ تھک رہی ہیں۔ میں سمجھ سکتی ہوں!
لیکن بس دعا کرتی جائیے کہ یہی اولاد آپکے سینے کی ٹھنڈک بنے۔ متقیوں کی امام بنے۔ آپکی تھکن اتر جائے۔ فی الحال کچھ وقت یوں گزرے گا، پھر ٹھیک ہو جائے گا سب
آپ بہت بڑا کام کر رہی ہیں۔ آپ بہت ہی مشکل کام کر رہی ہیں۔ خود کو کندھے پر تھپکی دیجیے۔ مسکرائیے۔ خود پر فخر کیجیے۔ اور بھاگ دوڑ زندگی میں سے کھینچ تان کر چند لمحے روزانہ کی بنیاد پر اپنے لئے جمع کیجیے۔ ان لمحوں میں اپنے اندر کو زندہ رکھیے۔ آپ ماں ہیں۔ آپ “آپ” بھی ہیں۔ خود میں سے خود کو کھونے نہ دیں۔