*شیطان غریبی کا خوف دلاتااوربے حیائی کی رغبت دیتاہے۔۔عقل والو سمجھو!*
*اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْـفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاۤءِ ۚ وَاللّٰهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ۖ يُؤْتِى الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاۤءُ ۚ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِىَ خَيْرًا كَثِيْرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ (البقرہ2: 268-269)*
*ترجمہ:* شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تعالٰی تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اللہ تعالٰی وسعت والا اور علم والا ہے۔وہ جسے چاہے حکمت اور دانائی دیتا ہے اور جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا اور نصیحت صرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں۔
*تشریح و تفسیر:*
۱) ۔احسن البیان:
یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہو جاؤ گے لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے جس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بےدھڑک خرچ کر ڈالتا ہے دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے لیکن یہی شخص سینما شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بےتحاشہ خرچ کرتا ہے اور اسے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔ حکمۃ سے بعض کے نزدیک عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہو سکتے ہیں صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے” (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ۔ مسلم کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔ ۔)
۲)۔بیان القرآن:
اب دیکھ لو ‘ تمہیں کون سا طرز عمل اختیار کرنا ہے : - رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں – اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے – شیطان تمہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتا ہے کہ اس طرح تمہارا مال کم ہوجائے گا اور تم فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اب اگر واقعی تم یہ خوف رکھتے ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر فقر آجائے ‘ لہٰذا مجھے اپنا مال سنبھال سنبھال کر ‘ سینت سینت کر رکھنا چاہیے تو تم شیطان کے جال میں پھنس چکے ہو ‘ تم اس کی پیروی کر رہے ہو۔ اور اگر تم نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے کہ وہ میری ساری حاجتیں آج بھی پوری کر رہا ہے ‘ کل بھی پوری کرے گا (اِن شاء اللہ) تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔- (وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ) – تم اس کے خزانوں کی محدودیتّ کا کوئی تصور اپنے ذہن میں نہ رکھو۔ یہ حکمت کی باتیں ہیں ‘ جن کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک چیزوں کا ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ‘ جو حکمت سے نظر آتا ہے۔ ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے ‘ لیکن کسی شے کی حقیقت کیا ہے ‘ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے : - اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن – جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ؟- جس کسی پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے وہ حکیم ہے۔ اور حکمت اصل میں انسان کی عقل اور شعور کی پختگی کا نام ہے۔ استحکام اسی حکمت سے ہی بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل و فہم اور شعور کی یہ پختگی اور حقائق تک پہنچ جانے کی صلاحیت جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔- (وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط) ۔ اس سے بڑا خیر کا خزانہ تو اور کوئی ہے ہی نہیں – (وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ) – ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو اولو الالباب ہیں ‘ عقل مند ہیں۔ لیکن جو دنیا پر ریجھ گئے ہیں ‘ جن کا سارا دلی اطمینان اپنے مال و زر ‘ جائیداد ‘ اثاثہ جات اور بینک بیلنس پر ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ اولو الالباب (عقل مند) نہیں ہیں۔
۲)۔ تفہیم القرآن:
حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوت فیصلہ ہے ۔ یہاں اس ارشاد سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہو گی ، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا ، بلکہ اس راہ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے ۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے ۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نور پایا ہے ، ان کی نظر میں یہ عین بے وقوفی ہے ۔ حکمت و دانائی ان کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے ، اسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے ۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں دوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو ، لیکن انسان کے لیے یہ دنیا کی زندگی پوری زندگی نہیں ، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جز ہے ۔ اس چھوٹے سے جز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بے پایاں زندگی کی بدحالی مول لیتا ہے ، وہ حقیقت میں سخت بے وقوف ہے ۔ عقل مند دراصل وہی ہے ، جس نے اس مختصر زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کر لیا ۔
۴)۔ معارف القرآن:
وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ جب کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ اگر کروں گا تو مفلس ہوجاؤں گا اور حق تعالیٰ کی تاکید سن کر بھی اس کی ہمت نہ ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور وعدہ الہٰی سے اعراض کرکے وعدہ شیطانی پر طبیعت کو میلان اور اعتماد ہو تو اس کو یقین کرلینا چاہئے کہ یہ مضمون شیطان کی طرف سے ہے، یہ نہ کہے کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت بھی نہیں دیکھی حکم کرنا تو درکنار رہا اور اگر یہ خیال آوے کہ صدقہ و خیرات سے گناہ بخشے جائیں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہوگی تو جان لے کہ یہ مضمون اللہ کی طرف سے آیا ہے، اور خدا کا شکر کرے اور اللہ کے خزانے میں کمی نہیں سب کے ظاہر و باطن نیت وعمل کو خوب جانتا ہے۔ يُّؤ ْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاۗءُ لفظ حکمت قرآن کریم میں بار بار آیا ہے اور ہر جگہ اس کی تفسیر میں مختلف معنی بیان کئے گئے ہیں، تفسیر بحر محیط میں اس جگہ تمام اقوال مفسرین کو جمع کیا ہے وہ تقریبا تیس ہیں مگر آخر میں فرمایا کہ درحقیقت یہ سب اقوال متقارب ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں صرف تعبیرات کا فرق ہے کیونکہ لفظ حکمت احکام بالکسر کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں کسی عمل یا قول کو اس کے تمام اوصاف کے ساتھ مکمل کرنا۔- اسی لئے بحر محیط میں آیت بقرہ اٰتٰهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ (٢٥١: ٢) جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق ہے اس کی تفسیر میں فرمایا :- والحکمۃ وضع الامور فی محلہا علی الصواب و کمال ذلک انما یحصل بالنبوۃ : حکمت کے اصلی معنی ہر شے کو اس کے محل میں رکھنے کے ہیں اور اس کا کمال صرف نبوت سے ہوسکتا ہے اس لئے یہاں حکمت کی تفسیر نبوت سے کی گئی ہے۔- امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ لفظ حکمت جب حق تعالیٰ کے لئے استعمال کیا جائے تو معنی تمام اشیاء کی پوری معرفت اور مستحکم ایجاد کے ہوتے ہیں اور جب غیر اللہ کی طرف اس کی نسبت کی جاتی ہے، موجودات کی صحیح معرفت اور اس کے مطابق عمل مراد ہوتا ہے۔- اسی مفہوم کی تعبیریں مختلف الفاظ میں کی گئی ہیں کسی جگہ اس سے مراد قرآن ہے کسی جگہ حدیث کسی جگہ علم صحیح کہیں عمل صالح کہیں قول صادق کہیں عقل سلیم، کہیں فقہ فی الدین، کہیں اصابت رائے اور کہیں خشیۃ اللہ اور آخری معنی تو خود حدیث میں بھی مذکور ہیں۔ رأس الحکمہ خشیۃ اللہ یعنی اصل حکمت خدا تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور آیت وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ (٢: ٦٢) میں حکمت کی تفسیر صحابہ کرام (رض) اجمعین وتابعین سے حدیث وسنت منقول ہے اور بعض حضرات نے یہ فرمایا کہ آیت زیر نظر يُؤ ْتَ الْحِكْمَةَ میں یہ سب چیزیں مراد ہیں (بحر محیط، ص ٣٢٠، ج ٢) اور ظاہر یہی قول ہے اور ارشاد قرآنی وَمَنْ يُّؤ ْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا سے بھی اس کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ معنی اس کے یہ ہیں کہ جس شخص کو حکمت دے دیگئی اس کو خیر کثیر دے دیگئی واللہ اعلم۔