واضح رہے کہ ذکر و اذکار میں مقصود بالذات تسبیح باری تعالی ہوتی ہے اور شمار کرنا مقصود اصلی نہیں ہوتا، اس وجہ سے احادیث میں مختلف طریقوں سے شمار کرنے کا تذکرہ ملتا ہے، ان میں سے ایک طریقہ انگلی سے شمار کرنے کا بھی منقول ہے، البتہ ایک روایت کے علاوہ باقی تمام روایات میں دائیں یا بائیں ہاتھ کی تعیین منقول نہیں، جس کی وجہ سے سے فقہاء و محدثین نے دونوں ہاتھوں میں سے کسی بھی ہاتھ سے شمار کرنے کی اجازت دی ہے، البتہ دائیں ہاتھ سے شمار کرنے کو افضل قرار دیا ہے ، جیساکہ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں موجود ہے ؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی بائیں ہاتھ سے شمار کرتا ہے تو اس کے عمل کو خلافِ شرع قرار دینا یا منع کرنا درست نہیں۔
باقی جن روایات میں انگلیوں پر گننے کا ذکر ہے وہاں ”عقد” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ” عقدِ اَنامل” گنتی کا مستقل ایک طریقہ اور فن ہے، جس میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے گنتی شروع ہوتی ہے، اور کافی گنتی کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنتی شروع ہوتی ہے، اسے دیکھتے ہوئے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تسبیح کا شمار صرف دائیں ہاتھ پر کیا جائے، تو یہ درست نہیں، کیوں کہ عرب کے عرف میں ”عقدِ اَنامل” کا فن تقریباً ہر ایک کو حاصل تھا، ہمارے عرف میں اس کے مطابق گنتی کا طریقہ عوام تو کیا خواص کی اکثریت بھی نہیں جانتی، نیز لغات حدیث کی شرح کرنے والے محدثین میں سے بعض نے اس کی شرح میں بائیں ہاتھ کا بھی ذکر کیا ہے، مزید یہ کہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے شمار کرنے کا تعامل امت میں قدیم زمانے سے چلا آرہاہے، سابقہ زمانوں میں بھی اہلِ علم نے اس سے منع نہیں کیا ؛ لہٰذا اس سلسلے میں شدت اور سختی نہیں کرنی چاہیے۔فقط واللہ اعلم