سرِ قرطاس جو بکھرا ہے سمیٹے کوئی
کتنا اچھا ہو کہ زندوں پہ بھی لکھے کوئ
لکھنے بیٹھا ہوں کہ مجبور قلم ہے میرا
میرا والد، میری عزت کا عَلَم ہے میرا
میری نس نس میں جو طاقت ہے عطا اس کی ہے
میری دنیا میں جو عزت ہے دعا اس کی ہے
ایسے ہمت سے، لگن سے ہمیں پالا اس نے
ڈولتی نائو میں دنیا کی سنبھالا اس نے
بات کردیتا ہے،دل میں بھی نہیں رکھتا ہے
باپ میرا کبھی اپنوں سے نہیں لڑتا ہے
اس کی عادت ہے کہ مخلوق کی خدمت کرنا
کبھی چپکے سے غریبوں کی اعانت کرنا
اپنے رشتوں کو بھی ،نسلوں کو سنوارا اس نے
کتنے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ملایا اس نے
کہیں سختی ،کبھی شفقت سے چلایا اس نے
کیسے دنیا کو بتانا ہے سکھایا اس نے
ساری دنیا میں جو دلشاد نظر آتی ہے
آئینہ اس کا ہی اولاد نظر آتی ہے
اپنی طاقت کو ،جوانی کو لٹایا اس نے
ہم کھنڈر تھے،پہ محل ہم کو بنایا اس نے
کالعدم تم جو کبھی اپنے تکبر کو کرو
پھر یہ ایسا ہے کہ نسلوں کو تواضع سے بھرو
ان کا بچپن تھا جو محنت سے عبارت تھا فقط
اور جوانی کا جو حاصل تھا ریاضت تھا فقط
کم ہی ہوتا ہے کہ خوابوں کو بھی تعبیر ملے
ان کی قسمت تھی ارادے کو بھی تعمیر ملے
جو بھی حاسد ہوں ،گھرانے کو بچالے مولا
رحمتِ خاص کے پردے میں چھپالے مولا
رب کے محبوب کے نقشے پہ چلیں ایسے ہم
جیسے دنیا میں ہیں کوثر پہ ملیں ایسے ہم
(مزمل آطہر)
والدین کی اولاد کے لیے قربانیاں ہمیشہ سے لازوال ہیں، اولاد کبھی والدین کا نہ تو حق ادا کر سکتی ہے نہ ان کا شکر ادا کر سکتی ہے۔
اپنے والد کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یہ چند اشعار تحریر کئے ہیں ۔اللہ ہم سب کو اپنے والدین میں سے جوبھی حیات ہیں ان کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین۔