حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی نوراللہ مرقدہ، نے *آپ بیتی* میں اپنی ذات سےمتعلق ایک بڑا دلچسپ واقعہ ذکر کیاہے۔ فرماتےہیں: ایک مرتبہ سفر سےواپسی پر جب میں ریل گاڑی سے اترا تو سخت پیاس محسوس ہوئی۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ *پلیٹ فارم* کےکنارے ایک *سکھ* کی دکان تھی جسمیں مختلف رنگ کےشربت تھے۔ میں دوکان پر گیا اور ایک بوتل کی طرف اشارہ کرتےہوۓ کہا کہ مجھےوہ فلاں شربت دےدو، *سکھ* نےمجھے اوپر سےنیچےتک بڑی غور سے دیکھا اور سخت انداز میں بولا : جاؤ یہاں سے۔ کوئی شربت وربت نہیں ملےگا۔ مجھے بڑا غصہ آیا کہ پیسے دیکر لے رہا ہوں۔ کوئی فری کا تھوڑی مانگ رہا ہوں۔ یہ سکھ بڑا حاسد قسم کا ہے۔ میں باہر آگیا۔ جو صاحب مجھے لینے آۓ تھے ، میں نے یہ واقعہ ان سےنقل کیا کہ وہ سکھ تو بڑا حاسد ہے، مجھے پیاس لگی ہے اور اس نےشربت دینےسےانکار کردیا۔ وہ صاحب مسکراۓ اور کہا: حضرت! وہ شربت کی دوکان نہیں, *شراب* کی دوکان تھی. یہ سن کر میں نےآسمان کی طرف چہرا کیا اور کہا *الحمدللہ* یا میرےاللہ ! تو نے مجھے آج بچا لیا، ورنہ اگر ایک گھونٹ بھی پی لیتا تو میرا کیا ہوتا؟ اور دل ہی دل میں اس سکھ بےچارےکا بہت شکر ادا کیا کہ اس نےمجھے شریف آدمی سمجھ کر دینےسےانکار کردیا۔
حضرت یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد فرماتےہیں :
میرے پیارو ! تم اگر متقیوں کی سی شکل ہی اختیار کرلو تو بہت سارے خرافات سے بچ جاؤگے۔
*ترےعشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے؟*
*کبھی بےادب نہ گزرا میرے پاس سے زمانہ*
(جگرؔمرادآبادی)