۔”” “” “” “” “
ایک شخص نے ڈرائی فروٹ کی دُکان ڈال رکھی تھی۔ ایک شرارتی بچہ روزانہ وہاں جاتا اورایک اخروٹ اُٹھا کر بھاگ جاتا۔ لیکن اُس شخص کو اُس بچے کی یہ عادت کبھی بُری نہیں لگی تھی، کیونکہ وہ سوچتا تھا کہ اُس کے پاس منوں، ٹنوں کے حساب سے اخروٹ پڑے ہوئے ہیں، اگر اُن میں سے ایک آدھ اخروٹ یہ بچہ لے بھی جاتا ہے تو کونسا نقصان ہو جائے گا۔
لیکن ایک روز یہ شخص اپنی دُکان کی خرید و فروخت اور نفع نقصان کا حساب لگا رہا تھا تو اچانک اُس نے سوچا کہ ایک کلو میں ٢۵ سے ٣٠ اخروٹ آتے ہیں اور فی کلو اخروٹ کی قیمت ٣۵٠ روپے بنتی ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ بچہ مذاق مذاق میں اُسے ہر مہینے ٣۵٠ روپے کا نقصان دے کر چلا جاتا ہے۔ چنانچہ اِس خیال کے آتے ہی اُس نے ارادہ کیا کہ آئندہ وہ بچے کو اخروٹ اُٹھانے نہیں دےگا۔
عزیز دوستو! ہماری زندگی بھی ڈرائی فروٹ کی اُس دکان کی مانند ہے جس میں ہمارا ایک ایک لمحہ اُن اخروٹ کی مثال ہے جو بچہ مذاق مذاق میں لے جاتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جو لمحے ہم خدا اور رسول ﷺ کی نافرمانی میں یونہی مذاق مذاق میں گزار دیتے ہیں، وہ کتنے قیمتی ہوتے ہیں؟ جو ایک بار چلے گئے تو پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئیں گے۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ اُس ڈرائی فروٹ والےشخص کو تو اپنے اخروٹ ضائع ہونے کا احساس ہو گیا تھا، لیکن ہمیں اپنی زندگی کے قیمتی اور انمول لمحوں کے ضائع ہونے کا نہ تو احساس ہوتا ہے اور نہ ہی افسوس۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سے اگر چند لمحے ضائع بھی ہو گئے تو کیا نقصان ہو جائے گا، ہم اللہ سے معافی مانگ کر پھر سے نیک بن جائیں گے۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ موت کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی حال میں آ سکتی ہے۔اللہ سے دُعا ہے کہ موت سے پہلے پہلے ہمیں اپنے تمام معاملات کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔ آمین