یہ ایک المیہ ہے کہ جاب کرنے والے افراد میں سے ایک کثیر تعداد کو معلوم ہی نہیں کہ امانت کیا چیز ہوتی ہے، اس کا استعمال کس طرح کرنا ہوتا ہے اور یہ کہ بالاخر ان امانتوں کا ایک دن انہیں حساب بھی دینا ہوگا۔ کمپنی کی طرف سے گاڑی، پیٹرول، فون، قلم، کاغذ، فرنیچر، گھر، رقم، لیپ ٹاپ اور جو بھی سہولیات ملتی ہیں وہ سب امانتیں ہوتی ہیں۔ حتٰی کہ ٹشو پیپر کے ڈبے اور روم اسپرے بھی امانت ہیں۔ ہر شخص، جو مسلمان ہے اور اللہ کا خوف رکھتا ہے اسے چاہیے کہ ان امانتوں کی حفاظت کرے اور سوچ سمجھ کر خرچ کرے۔ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے غلط استعمال کا علم کمپنی انتظامیہ کو نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوگا، مگر یاد رہے کہ ایک ایسی ذات بھی موجود ہے جو انسان کے ہر عمل کو دیکھ رہی ہے اور چھوٹی سی چھوٹی خیانت کو بھی جانتی ہے۔
چند سال قبل مجھے یاد ہے کہ میں نماز کے لیے مسجد میں داخل ہوا تو ایک عرب نوجوان دوسرے کے ساتھ الجھ رہا تھا۔ قریب جا کر وجہ معلوم ہوئی کہ وہ مسجد کی بجلی سے اپنا موبائل چارج کر رہا تھا جس پر دوسرا اسے سمجھا رہا تھا کہ مسجد کی بجلی کو اپنے ذاتی مصرف میں لانا گناہ ہے۔ جبکہ دوسرے کا اصرار تھا کہ اس سے کتنی بجلی خرچ ہوتی ہے؟ سمجھانے والا بضد تھا کہ سوال ’’کتنی‘‘ کا نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ جتنی بھی خرچ ہوتی ہے وہ جائز ہے یا ناجائز؟
چھٹی کے لیے جعلی میڈیکل سرٹیفیکٹ بنوانا، سفری اخراجات کے جعلی یا اضافہ شدہ بل پیش کرنا، کمپنی کے موبائل سے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنا، جس کا بل کمپنی کو دینا پڑے، کمپنی کی گاڑی کا ذاتی استعمال جس کی اجازت نہ دی گئی ہو، ڈیوٹی کے اوقات میں اپنا کوئی ذاتی کام نمٹانا، اخبار پڑھنا، بچوں کے اسکول کے نوٹس اور ہوم ورک کے پرنٹ کمپنی کے پرنٹر یا فوٹوکاپیئر سے نکالنا، کرکٹ کے ٹورنمامنٹ دیکھنا۔۔۔ اگر آؤٹ ڈور کام ہے تو وقت گذار کر دن پورا کرنا، ڈیوٹی اوقات میں بچوں کو اسکول لے جانا اور پھر واپس اٹھانا، کمپنی کی گاڑی میں دوستوں یا فیملی کو لے کر سیر سپاٹے کرنا اور اس طرح کی کئی خیانتیں جن کو آج ہمارے مسلمان بھائی گناہ تک نہیں سمجھتے، نہیں جاتے کہ کتنا بڑا بوجھ وہ اپنے کندھوں پر لادتے چلے جا رہے ہیں جو انہیں آخرت میں اٹھانا ہوگا۔