ابو مطیع اللہ حنفی
☀☀☀☀
★ہمارا جو رویہ ہے آج کل اپنی اولاد کے ساتھ کہ ہمارا کمرہ گویا کہ عدالت کا کمرہ ہے ‘ بچوں کو مجرموں کی طرح پکڑ کر لا رہے ہیں ‘ گھسیٹتے ہوئے ‘ گالیاں دیتے ہوئے‘ منہ پہ تھپڑ مارتے ہوئے ‘ تم ایسے ہو ویسے ہو ‘ نماز نہیں پڑھتے ہو‘ سوئے رہتے ہو‘ نکل جاؤ میرے گھر سے۔ تو جب تم آج اس کو گھر سے نکلنے کو کہہ رہے ہو تو کل وہ جوان ہو جائے تو تمہیں نکلنے کا کہے گا۔
*عبرت آموز واقعہ*
ہمارے ایک بزرگ نے اس موضوع پر ایک واقعہ سنایا تھا کہ انڈیا کے کسی شہر میں ایک سکھ تھا‘ وہ بوڑھا ہوگیا اور بیٹا جوان ہوگیا‘ بوڑھے کو دمے کا مرض لاحق ہوگیا‘ اب رات ہوتے ہی دمے کا شدید زور ہو جاتا ‘ کھانسی اور بلغم نکلنا شروع ہو جاتا۔ چنانچہ ساری رات یہ سلسلہ جاری رہتا‘ وہ بیچارہ خود بھی پوری رات جاگتا اور شور کی وجہ سے دوسرے بھی جاگتے۔ بیٹا سارا دن کام سے تھکا ہارا ہوتا ‘ بار بار نیند اکھڑتی تو بہت تنگ ہوتا‘ آخر پھر سوچتا کہ کوئی بات نہیں باپ ہے‘ لیکن رفتہ رفتہ جب دیکھا کہ روز کا ہی قصہ ہے‘ نہ تو یہ مرتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے‘ یہ تو ساری رات جگاتا ہی ہے‘ ایک دن اس کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا کام ختم ہی کر دوں ‘ قریب میں ایک دریا بہتا تھا‘ ایک دن اس نے اپنے بوڑھے باپ کو کندھوں پہ اٹھایا اور دریا کی طرف چل دیا‘ اب باپ خاموش کچھ نہیں بول رہا کہ کہاں لے جارہے ہو اور کیوں لے جارہے ہو؟ بیماری کی وجہ سے ویسے ہی سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا‘ مقابلے کی سکت نہیں تھی اور دل کا چور جانتا تھا جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
چنانچہ جیسے ہی بیٹا دریا میں اترا اور پانی پنڈلیوں تک آیا اور پھینکنے کا ارادہ کیا تو باپ نے کہا: بیٹا ذرا اس جگہ سے ہٹ کر فلاں جگہ پہ مجھے پھینک دے ‘ یہاں مت پھینک‘ بیٹے نے کہا: یہاں میں اور وہاں میں کیا فرق ہے؟ یہاں بھی پانی ہے وہاں بھی پانی ہے‘ باپ نے کہا بس میری خواہش ہے بیٹے نے کہا پہلے مجھے بتاؤ اس میں کیا راز ہے پھر پھینکوں گا‘ باپ کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے بھی اپنے باپ کو یہیں پھینکا تھا۔
بیٹا سمجھدار تھا ‘ کہنے لگا اچھا تو یہ بات ہے‘ فوراً دریا سے نکلا اور سیدھا واپس اپنے گھر گیا‘ جا کر باپ کا کمرہ صاف کیا‘ بستر کو دھویا‘ چادر بدلی اور صبح جب ہوئی تو اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا‘ دوا دلوائی اور بقیہ زندگی خوب اس کی خدمت کی۔ وہ بہتر ہوا نہ ہوا لیکن اس نے اپنا فرض پورا کیا۔ اللہ بچائے ‘ اللہ بچائے‘ جب ہم اپنی اولاد کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آرہے ہیں اور ان کو گالیاں دے رہے ہیں ‘ تو پھر ہم کیسے ان سے خدمت کی امید کر رہے ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کا اور نرمی کا سلوک کریں‘ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم ان کے سامنے نیک نمونہ پیش کریں‘ جب ہم نیک ہوں گے‘ با اخلاق ہوں گے اور شریعت کے پابند ہوں گے تو ہماری اولاد بھی نیک اور صالح ہوگی اور ہمارا احترام اور خدمت کر نے والی ہوگی۔
یہ تو میں نے مسلمان گھرانے کے بچے کے پیداہونے کے بعد شروع کے آداب بتائے۔ ان ہی سے اندازہ لگا لیں کہ باقی زندگی میں ہمارے اوپر کتنی ذمہ داریاں ہوں گی کہ ہم ان کو کس طرح نیک بنائیں‘ یہ ہماری ساری زندگی کی ذمہ داریاں ہیں‘ اس کو ساری زندگی انجام دینا ہیں ‘ بزرگوں سے وابستہ رکھیں اور خود بھی وابستہ رہیں اور پوچھ پوچھ کر چلتے رہیں ‘ پوچھ کر چلنے میں بڑی آسانی ہے اور سہولت ہے۔ ہر آدمی کا حال الگ الگ ہوتاہے‘ ماحول الگ الگ ہوتا ہے ‘ اس سلسلے میں دینی رہنمائی حاصل کر کے اپنے گھر میں دینی ماحول کا اہتمام کر نا چاہئے۔
*اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا ء فرمائے۔ (آمین)*
تالیف⇦:- محمد ریاض جمیل
✍ترتیب اقساط⇦: ابو مطیع اللہ
8171119738