محرم الحرام فضائل و مسائل – قسط – 14
*مثال* پھر یہ بھی تعلیم دی ہے کہ تعزیت ایک ہی بار کرنی چاہیے، ایک سے زائد مرتبہ تعزیت کرنا مناسب نہیں، اس سے ان لوگوں کی غلطی سامنے آجاتی ہے جو بار بار تعزیت کے لیے جاتے ہیں جو لواحقین کے لیے غم میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔(رد المحتار، در مختار، عالمگیریہ، احکامِ میت)
*مثال* ساتھ میں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ تعزیت تین دن تک کسی بھی دن کی جاسکتی ہے، تین دن کے بعد تعزیت کرنا مناسب نہیں، البتہ اگر تعزیت کرنے والا سفر پر ہو یا میت کے لواحقین سفر پر ہوں یا کسی اور عذر کی وجہ سے تین دن کے اندر تعزیت کا موقع نہ ملے تو تین کے بعد بھی تعزیت کی جاسکتی ہے۔ (رد المحتار، احکامِ میت، فتاویٰ رحیمیہ)
*مثال* پھر تعزیت میں بھی اجتماع کرنا یا مجمع لگانا اچھا قرار نہیں دیا گیا بلکہ تعزیت کے لیے جاکر متعلقہ افراد سے تعزیت کرکے اگر ہوسکے تو لواحقین کے ساتھ کسی معاملے میں تعاون کیا جائے، ورنہ تو وہاں سے واپس آجائے اور اپنے کاموں میں مشغول ہوجائے۔
مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میت کے یہاں مجمع لگانے کو نوحہ سمجھتے تھے۔ اور نوحے کی مذمت اور ممانعت احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
*6905: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ.*
اس تفصیل سے شریعت کا مزاج بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شریعت کا مزاج غم بڑھانے ، غم پیدا کرنے ، غم کے اسباب مہیا کرنے یا غم منانے کا نہیں بلکہ غم دور کرنے کا ہے، غم کے خاتمے اور غم مٹانے کاہے۔ اس لیے غم منانے کو سنت قرار دینا بذاتِ خود شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔