بھائ جان میں نے تین کروڑ بیس لاکھ روپے کی دوکان خرید لی ہے۔
جمعہ 26 جنوری کو جب شرجیل نے لاہور سے فون کیا تو اتنا جوش وخروش میں تھا کہ میرا حال احوال دریافت
کرنا بھی بھول گیا۔ پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟
” کراچی میں” میں نے جواب دیا دو دن بعد لاہور پہنچوں گا۔
بولا ” لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کیجئے گا” میں نے حامی بھر لی ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کامیانی پر مجھے اطمینان قلب محسوس ہوا۔
دس سال قبل شرجیل نے ” ایم ایس سی” کر لی تو حاندانی حالات کے باعث جاب یا بزنس اس کی شدید ضرورت تھی
شرجیل ایک روز کہنے لگا بھائ جان کوئ ٹھوس اور قابل عمل حل بتائیں کہ میں اپنے پاوں پر کھڑا ہو جاوں۔
میں نے توقف اور غوروخوض کے بعد کہا تین دن بعدمیں اسلام آباد جا رہا ہوں میرے ساتھ چلنا ۔
اور پھر ہم بزرگ دوست “قاضی صاحب” کے پاس گئے ۔ قاضی صاحب حکیم اور روحانی دانشور ہیں ۔
قاضی صاحب کو مسلہ بتایا تو بڑے اطمینان سے مسلہ سنتے رہے ۔ کمرے میں خاموشی چھاگئ تو بولے شرجیل صاحب آپ حوصلہ مند دکھائ دیتے ہیں ۔آپ دو کام کریں کوئ چھوٹا موٹا دھندا کرلیں اور دوسرا یہ کہ جو بھی کریں اس میں اللہ تعالٰی کو اپنے ساتھ بزنس پاٹنر بنالیں۔ شرجیل نے میری طرف اور میں نے شرجیل کی طرف دیدے پھاڑ کر دیکھا۔ قاضی صاحب نے سلسہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا ” یہ کام مردوں کا ہے ، صرف عزم با لجزم رکھنے والا مرد ہی کر سکتا ہے اگر کاروبار کے نیٹ پرافٹ میں پانچ فیصد اللہ تعالٰی کا شیئر رکھ کر اللہ تعالی کے بندوں کو دے دیا کریں اور کبھی بھی اس میں ہیرا پھیری نہ کریں تو لازما آپ کا کاروبار دن رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔
واپسی پر لگتا تھا شرجیل اس پر عمل نہیں کرے گا لیکن اس نے کمال حیرت سے عمل کر دکھایا” ۔
مجھے یاد ہے یہ 1997 کا سال تھا ،اس کے پاس صرف ایک ہزار روپیہ تھا ، اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا
اسی ایک ہزار روپے سے اس نے بچوں کے پانچ سوٹ خریدے اور انار کلی بازار میں ایک شیئرنگ سٹال پر رکھ دیے۔
دو دن میں تین سو روپے پرافٹ ہواتھا تین سو روپے میں سے اس نے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کی راہ میں دے دیئے تھے۔
پھر اور سوٹ خریدتا اور اصل منافع میں سے پانچ پرسنٹ اللہ تعالی کے نام کا شیئر مخلوق پر خرچ کرتارہا۔ یہ پانچ پرسنٹ بڑھتے بڑھتے چھ ماہ بعد 75 روپے روزانہ کے حساب سے نکلنے لگے یعنی روزانہ کی آمدنی تقریبا سات سو روپے ہو گئ ایک سال بعد ڈیڑھ سو روپے ، تین سال بعد رازانہ پانچ پرسنٹ کے حساب سے تین سو روپے نکلنے لگے۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ تین سال بعد اسے روزانہ چھ ہزار بچنا شروع ہو گئے تھے۔ اب سٹال چھوڑ کر اس نے دوکان لے لی تھی ۔ جب فون ایا تو میرا پہلا سوال یہی تھا کہ اب روزانہ پانچ پرسنٹ کتنا نکل رہا ہے؟
اس نے بتایا کہ روزانہ ایک ہزار نکل اتا ہے جو خلق خدا پر خرچ کر دیتا ہے۔گوہا اب آمدنی روزانہ بیس ہزار روپے ہے
یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالی کے ساتھ ” بزنس” میں اس نے اج تک بےایمانی نہیں کی۔
قاضی صاحب نے بتایا تھا کہ جس کاروبار میں اللہ تعالی کو پارٹنر بنالیا جائے یعنی اللہ تعالی کی مخلوق کا حصہ رکھ لیا جائے وہ ہمشہ پھلتا پھولتا ہے۔بشرطیکہ انسان کہ اندر تکبر نہ ہو ” عاجزی ہو” انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ کاروبار اتنا چل نکلتا ہے کہ ایک وقت اتا ہے جب بندہ سوچتا ہے ، میرا کافی روپیہ لوگوں میں مفت میں تقسیم ہو رہا ہے ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ دولت مند بننے کا یہ نسخہ انہیں بزرگوں سے منتقل ہوا ہے اور کبھی بھی یہ نسخہ ناکام نہیں ہوا۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ
ہماری زبان میں ا اصطلاح ہے ” دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنا”
تو جو امیر ہونا چاہتا ہے وہ اپنے کاروبار میں اللہ کو حصہ دار بنا لے