آفاق و اَنفس اور جدید سائنس
از محمد عمران خان
سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ۔(حٰم السجدہ41: 53)
*ترجمہ:* ہم انہیں اپنی نشانیاں کائنات میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے وجود میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ یہی حق ہے۔ کیا تمہارے رب کی یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز کا گواہ ہے؟
*تفسیر:* آفاق ارض و سماء تو بے شک وہی ہیں جنہیں انسان ہمیشہ سے دیکھتا رہا ہے، اور انسان کا اپنا وجود بھی اسی طرح کا ہے جیسا ہر زمانے میں دیکھا جاتا رہا ہے، مگر ان چیزوں کے اندر خدا کی نشانیاں اس قدر بے شمار ہیں کہ انسان کبھی ان کا احاطہ نہیں کر سکا ہے، نہ کبھی کر سکے گا۔ ہر دور میں انسان کے سامنے نئی نئی نشانیاں آتی چلی گئی ہیں اور قیامت تک آتی چلی جائیں گی (ترجمان القرآن)۔سورۃ البقرۃ 2کی آیت 164 کے علاوہ کسی اور آیت ِ قرآنیہ میں اس قدر مظاہر ِفطرت (phenomena of nature) کا بیان یکجا نہیں کیا گیا لہذا ڈاکٹر اسرار احمد نے اسے ‘آیت الآیات’ قرار دیا ہے (بیان القرآن)۔
یہاں منہج فکر یا ورلڈ ویو کا فرق نوٹ کیجئے۔ ویڈیو دیکھنے پر جدید تعلیم حاصل کرنے والا بچہ اس کائنات کی وسعت کو دیکھ کر فوراً یہ سوال کرتا ہے یا اسکا ذہن اس جانب منتقل ہوجاتا ہے (جیسا کہ راقم کے بیٹے نے فوری ردعمل دیا کہ یہ تو بہت بڑی ہے یہاں ایلینز aliens بھی ہوں گے) کہ یہاں کوئی دوسری خلائی مخلوق اور UFO وغیرہ بھی موجود ہوں گی جیسا کہ دور حاضر کا میڈیا انکے ذہنوں میں مسلسل یہ بے معنی خوف انڈیل رہا ہے۔ جب ایک ملحد (منکرِ خدا atheist)کائنات کی ان پہنائیوں کو دیکھتا ہے تو وہ کہتا ہے دیکھو یہاں خدا کہیں نہیں ہے جیسا کہ سوویت یونین کے پہلے خلائی سفر کے بعد ایک کمیونسٹ سیاستدان کا بیان تھا۔ سائنس و سائنسدانوں کی سوچ کا زاویہ discourseیہ ہے کہ وہ کس طرح اس کائنات کو ایکسپلور کرکے اسکو اپنے اختیار و کنٹرول میں لائے، اسپر انسانی اتھارٹی و حکم نافذ کرے۔ اس حوالہ سے مذہبی تناظر مغرب شناس اقبال یوں بیان کرتے ہیں:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اسمیں ہیں آفاق
مسلمان کہتا ہے: دیکھو یہ کائنات کس قدر وسیع و عریض ہے اور انسان کس قدر بے خانماں و بے وقعت۔ لہذا اللّٰہ سبحانہ تعالیٰ جو کہ خالق و مالک علی کل شئی ہے، ہر شے پر حکم نافذ کرنے والا۔ وہ خود کتنا عظیم الشان و عظیم المرتبت ہوگا جس نے اس قدر فراخ و کشادہ کائنات کو تخلیق کیا اور پھر اسکا انتظام و انصرام بھی سنبھالے ہوئے ہے ۔ بے شک: *وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ وَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ* ترجمہ: وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں۔(الانبیاء 33:21)
المیہ یہ ہے کہ یہ مذکورہ روایتی ورلڈ ویو مغربی اقدار کے پھیلنے سے تیزی سے سکڑ رہا ہے۔ جدید انسان modern human اپنے اس فطری و جبلی انداز ِنظر کو بھلاکر سائنسی و ملحدانہ تصورِ کائنات اور تصورِ انسان کو اپنا رہا ہے۔ وہ یہ بات فراموش کررہا ہے کہ وہ عبد ہے معبود نہیں۔ وہ محدود ہے لامحدود نہیں۔ وہ پابند ہے آزاد نہیں۔ وہ جوابدہ ،مسئول و مکلف ہے لَا یُسۡئَلُ نہیں۔ اسے موت ہے ہمیشگی و لافانیت نہیں۔ اور یہ کائنات غورو و تدبر کے لئے ہے تسخیر و تحکیم کے لئے نہیں۔ عرفانِ خداوندی کے لئے ہے دعویٰ خداوندی کے لئے نہیں۔ رجوع الی اللّٰہ کے لئے ہے اللّٰہ کے انکار کے لئے نہیں۔
درحقیقت علم اور تجربہ، انسان کا ذہنی پس منظر یا frame of reference بدل دیتا ہے۔ اسکے تناظر Perspective کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔یعنی انسانی ذہن آیاتِ انفس و آفاق کواپنے موجودہ دستیاب علم اور عقل کے مطابق ہی سمجھ سکتا ہے ۔قرآنی لفظ”شاکلۃ (اپنے طریقے پر )” (بنی اسرائیل17: 84) غالباً اسی جانب اشارہ کررہا ہے۔گویا نہ قرآن کے الفاظ بدلتے ہیں نہ انکے معنی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے جو شے تبدیل ہوتی ہے وہ انسان کا اپنا ذہنی پس منظر ہے ۔
سائنس مغربی ملحدین میں Scientism اور مغربی مسیحین میں Scientology کی صورت میں معبود کے درجہ پر فائز کی جاچکی ہے۔ آفاق و انفس یعنی انسانی جسم اور کائنات کے بارے میں سائنس کی اپروچ یہی ہے کہ کس طرح انسانی ارادہ human will کو آفاق و انفس (جسم و کائنات)پر نافذ و قائم کردیا جائے۔ مثلاً: کوئی شخص بلندی سے چھلانگ لگانےاور پرندوں کیطرح ہوا میں معلق ہونے کے اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے لیکن کششِ ثقل کے قانون Gravitational Force کی رکاوٹ کے باعث وہ ایسا نہیں کر پاتا ،لہذا وہ ٹکنالوجی کو بطور آلہ استعمال کر کے اپنے اس ارادہ کو حاصل کرلیتا ہےاور ہوائی جہازکی ایجاد کر کے وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو لامحالہ سائنس و ٹکنالوجی ہی وہ مطلوب شے قرار پاتی ہےجس سے وہ اپنی تمام خواہشات کو پورا کر سکتا ہے ۔تو وہ کیوں نہ سائنٹولوجی Scientology ۔سائنٹزم Scientism۔ ٹیکنو سائنس Techno science پر ایمان نہ لائے ۔ اسے اپنے ہر غم کا مدارو ملجا قرار نہ دے ۔سائنس کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں نہ لگائے۔ March for Science (MFS) اسی فکر و استدلال کا شاخسانہ ہے۔
انسان جب سے اس کائنات میں موجود ہے اپنی ضروریات کے مطابق آلات و اوزار تیارکرتا رہا ہے لہذا ٹکنالوجی قدیم زمانے سے موجو د ہے۔ پھر اس ٹکنالوجی کی تفہیم کے لئے سائنس وجود میں آئی ۔ مثلاً جرمنی میں کپڑا رنگنے کے بہت سے طریقے مستعمل تھے اس تکنیک سے کیمیا وجود میں آئی۔ سترہویں صدی سے پہلے ٹیکنالوجی سائنس کی مددگار تھی لیکن اسکے بعد سائنس ٹیکنالوجی کی مددگار بن گئی ہے، جنکے ادغام سے Techno-Scienceکی اصطلاح وجود پزیر ہوئی۔سترہویں صدی سے قبل تمام مذہبی معاشروں میں سائنس و ٹکنالوجی لوگوں کی ’’ضروریات Needs‘‘پوری کرتی اور بطور خادم کام کرتی تھی۔ بیسویں صدی سے ٹیکنو سائنس انسانوں کی غیر فطری ’’خواہشاتDesires‘‘پوری کررہی ہے ۔ درحقیقت یہ غیر فطری خواہشات ’’تکاثر=دنیا پرستی‘‘ہے۔ ان غیر فطری خواہشات کو بڑھکا کر حلقہ خریداری Consumerism مہیا کیا جاتا ہے۔ ٹیکنو سائنس پہلے مسائل، جسمانی بیماریاں ،نفسیاتی عوارض اور زمینی و ماحولی مصائب پیدا کرتی ہے پھر مسئلے کو حل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے جسے عظیم الشان سائنسی انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔ ہر پچھلے مسئلہ کا نیا مصنوعی یا مصنوعاتی حل manufactured solution پیش کر دیا جاتا ہے۔ گویا مغربی پرابلم سولونگ اپروچ میں فرد اور سماج کے اصل سوال یا بنیادی مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے آخری سوال کو سائنس و ٹکنالوجی Science n Technologyسے handle کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقی مدعا یا مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے۔ نتیجتاً ایک نیا، مزید پیچیدہ اور نسبتاً بڑا مسئلہ جنم لے لیتا ہے۔ مثلاًتجدید آبادیbirth controlکے مصنوعی حل سے آج مغرب کئی گھمبیر مسائل کا شکار ہوچکا ہے۔سائنس و ٹکنالوجی کے اہداف حصول سرمایہ Capitalکے بغیر ناممکن ہیں ۔دولت اصل کامیابی اور نیکی قرار پاتی ہے Wealth is Virtue۔لہذا مطلوب نعرہ یہی ٹھہرتا ہے “کیسا خدا کیسا نبی۔۔۔پیسہ خدا پیسہ نبی۔”
یہاں مختصراً یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انیسویں صدی کے آخر تک سائنس نیچرل فلاسفی کہلاتی تھی پھر اسے فلسفہ سے علیحدہ کر کے الگ ذریعہ علم بنا دیا گیا۔سائنس و فلسفہ میں جبتک ہم آہنگی تھی چیزوں کی حقیقت اور قدر کا سوال برقرار رہتا تھا مثلاً یہ سوال کہ میں پانی کیوں پیوںِ ؟ انکی جدائی کے بعد یہ سوال بے کار ہو گیا کہ پانی پیا جائے یا نہیں ۔ اس سوال کی ضرورت باقی نہ رہی۔اب سوال یہ باقی رہ گیا کہ ’’ اچھے طریقے سے پانی کسطرح پیا جائے‘‘دلیل اور عقلیت جب آلاتیinstrumentalہو گئے تو سائنس فلسفہ سے الگ ہوگئی۔ مذہب اور ریاست تو جد ا کر دیئے گئے ہیں مگر سائنس اور ریاست لازم و ملزوم ٹھہرے۔ اس سے پہلے ریاست و حکومت جیسی سرپرستی مذہب کی کیا کرتی تھی اب اس سے کہیں زیادہ وہ سائنس کی سرپرستی کرتی ہے۔کیونکہ ریاستی اہداف قانون کی حاکمیت اس سے برقرار رہتی ہے۔ اسکی حالیہ مثال چین کے مغربی صوبے سنکیانگ (سنجیانگ) کی ہے جہاں کیمونسٹ ریاست نے اویغور مسلمانوں کو انکے مذہب سے دور کرنے کے لئےجدید سائنس و ٹکلنالوجی سے بھرپور مدد لی ہوئی ہے۔
*اللہ المالک الملک* کے بارے میں قرآن وضاحت کرتا ہے: *کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شَاْنٍ۔ ہر روز وہ کام میں مصروف رہتا ہے۔ہر دن وہ نئی شان میں ظاہر ہوتا ہے۔* عبد اللہ بن منیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی ہم نے پوچھا۔ حضرت! ‘شان’ سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ گناہ بخشتا ہے اور غم دور کرتا ہے اور کسی قوم کو بلند اور کسی کو پست کرتا ہے۔یعنی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور آئندہ ہو گا اور جو کچھ قیامت میں ہو گا وہ سب اس کی ایک ایک شان کا جلوہ ہے۔
مغربی دنیا میں سائنس اور مذہب کو ایکدوسرے کا مخالف Rivalسمجھا جاتا ہے۔ جسکی معقول تاریخی وجوہات موجود رہی ہیں۔ اسکے بالمقابل اسلام یا مسلمانوں میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں رہی۔ ’’قرآن پاک ’سائنس Science‘ کی کتاب نہیں بلکہ ’سائنز Signs یا نشانیوں= آیات’ کی کتاب ہے۔ گویا قرآن پاک کی ہر آیت اللہ علیم وحکیم کی ایک نشانی ہے، اس کتاب کا مخاطب انسان ہے اور ا سکا مقصد انسان کی ’ہدایت و رہنمائی ‘ہے۔ قرآن = کتابِ ہدایت۔
قرآن کی مثال ایسے ہے جیسے کسی دوست کی تحفے کے طور پر دی ہوئی کوئی نشانی جیسے صندوق میں رکھا رومال یا قلم جو طویل عرصہ گزر جانے کیوجہ سے بھلا دیا گیا ہو ۔یہ نشانی دراصل اس بھولے ہوئے دوست اور اسکی باتوں کی یاد دلاتی ہے ، اس دوست سے ملاتی ہے۔ قرآن ، اپنی نشانیوں یعنی آیاتِ قرآنیہQuranic Verses،آیاتِ آفاق Signs in the Horizonsاور آیاتِ انفس Signs within themselves سے ایمان والوں، یقین کرنے والوں ، غورو فکر کرنے والوں، عقل والوں کو یاد دہانی کرواتا ہے ، بھولا ہوا سبق یاد کرواتاہے ، گم گشتہ راستہ دکھاتاہے ۔انھیں یاد کرواتا ہے کہ انکی اصل کیا ہے۔ انھیں کیا کرنا ہے۔ انھیں کہاں لوٹ کر جانا ہے۔ انھیں یوم ِاَلست کی یاد کرواتا ہےجہاں انکی ارواح ۔ انبیائے سابقین کی تعلیمات کو خاتم النبیین ﷺ کی تعلیمات سے جوڑتا ہے۔ حق اور باطل کو جد ا جدا کرکے صراطِ مستقیم پر چلادیتا ہے اور اپنے نبی کے اسوہ role modelسے انکی مسلسل رہنمائی کرتا ہے۔
*یاد رہے!* سائنس بجائے خود ایک ظنی و تخمینی علم ہے اسکے نظریات و مفروضات حتمی نہیں ہوتے، بلکہ انمیں ترمیم و اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سائنس کے سامنے جب کسی مسئلہ پر کافی مواد جمع ہو جاتا ہے تو قیاس یا مفروضہ Hypothesisنمودار ہوتا ہے، جب سائنسدان اسکے مزید ثبوت مل جانے پر اسے قبول کرلیتے ہیں تو اسے نظریہ Theoryکہا جاتا ہے اور جب اس نظریہ کے ثبوت دنیا میں عام ہوجاتے ہیں اور اکثر و بشتر سائنسدان اس سے متفق ہوجائیں تو اسے قانونLawکہا جاتا ہے۔لیکن یہ قانون بھی کوئی حتمی شے نہیں ۔
سائنسی منہج اسی طرح مغربی علمیت کے بنیادی علوم یعنی فزیکل و سوشل سائنسز قطعیت و حتمیت سے عاری ، غیر متعین اور ہمہ وقت متغیر ہیں۔ شک و ارتیابیت Skepticism انکی بنیا د ہے۔ ایک ایسا شک جو کبھی ختم نہیں ہوتاendless doubt۔جسکا حتمی مقصد تسخیرِ ذات و تسخیرِ کائنات control on human & universe ہے۔اسکے برعکس اسلامی علمیت غورو تدبر reflect uponسے شروع ہو کر یقین believeپر جا ٹھہرتی ہے۔ اسکا مطمع نظر یا مقصد تسخیرِذات و کائنات نہیں بلکہ معرفتِ الٰہی Cognition of ALLAH ہے۔ جیسے پیغمبر ابراہیم ؑ کا انسان اور کائنات پر غور وفکر کرکے عرفانِ خداوندی سے سرفراز ہونا(الانعام6: 74۔84؛ البقرۃ 2: 240)۔اسلامی علمیت کا مرکز وحی و الہام Revelationہے۔ تاہم عقل ، حواس و تجربہ بھی انکے ماتحت subordinate نعمت مانے جاتے ہیں۔ اگر مذہب کی بنیاد عقیدہ (Faith)پر ہے تو سائنس کی بنیاد کھوج Investigation پر ہے۔مذہب اور جدید سائنس دو الگ الگ مناہج ہیں ایک یعنی مذہب مابعد الطبعیات Metaphysicalسے خود کو ثابت کرتا ہے تو دوسرا یعنی سائنس اپنی سند طبعی و حِسّی دنیا Physical or Sensual سے لاتا ہے۔ سائنس میں نتائج کی بہت اہمیت ہے جبکہ مذہب میں مقاصد کی اہمیت زیادہ ہے نتائج کی اہمیت ثانوی ہوا کرتی ہے۔ مقصد کا تعین نتائج سے بے پروا ہ ہو کر اصول و قاعدہ کی بنیاد پر کیاجاتا ہے ۔
سائنس و ٹکنالوجی کی تمام تر جدت طرازیوں، رعنائیوں اور ایجادات و دریافتوں کا پھیلاؤ خود انسانوں اور اسکے ماحول و رہائش گاہ یعنی زمین کے لئے بجائے مفید ہونے کے مضر ثابت ہورہا ہے۔ ایک طرف اگر انسان اگر خود سر و خود غرض ہورہا ہے تو دوسری طرف اسکا ماحول بھی تیزی سے آلودہ و ناقابلِ اصلاح ہوتا جارہا ہے۔ مصنوعی ذہانت (A.I)، روبوٹکس و راکٹ سائنس جیسی مسحور کن ایجادات اور پیش رفتیں اسکی جلد از جلد فنا کے سامان مہیا کررہی ہیں یا کم از کم چند نو استعمار بلینیئرز کے سوا انسانوں کی اکثریت اس بے ہنگم اور بے مہار آزادی و ترقی کی بھینٹ چڑھتی محسوس ہوتی ہیں۔ جہاں غربت و افلاس مسلسل بڑھ رہی ہے، بےروزگاری کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے، مہنگائی و افراطِ زر ہے۔ ایک طرف امیر غریب کی طبقاتی کشمکش ہے تو دوسری طرف سرحدی و علاقائی تنازعات بھی اکثر ممالک کو باہم جنگ و جدل کے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔ بڑی طاقتوں کی معاشی کشاکش ہے تو تہذیبی جنگ بھی جاری ہے۔ شخصی و جماعتی سطح پر مفادات کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر طرف افراتفری اور دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی دھکم پیل جاری ہے۔ قناعت و تحمل اور استغناء ناپید ہوا جاتا ہے۔ مادیت کے عفریت نے روحانیت کو شجرِ ممنوعہ بنا چھوڑا ہے۔