مجھے کسی صاحب نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا.
وہ ترکی کے راستے یونان جانا چاہتے تھے.
ایجنٹ انھیں ترکی لے گیا.
یہ ازمیر شہر میں دوسرے لوگوں کے ساتھ برفباری کا انتظار کرنے لگے.
سردیاں یورپ میں داخلے کا بہترین وقت ہوتا تھا.
برف کی وجہ سے سیکیورٹی اہلکار مورچوں میں دبک جاتے تھے،
بارڈر پرگشت رک جاتا تھا،
ایجنٹ لوگوں کو کشتیوں میں سوار کرتے تھے،
اور انھیں یونان کے کسی ساحل پر اتار دیتے تھے،
یہ ایجنٹوں کی عام پریکٹس تھی۔
اس صاحب نے بتایا:
“ہم ترکی میں ایجنٹ کے ڈیرے پر پڑے تھے’
ہمارے ساتھ گوجرانوالہ کا ایک گندہ سا لڑکا تھا’
وہ نہاتا بھی نہیں تھا،
اور دانت بھی صاف نہیں کرتا تھا.
اس سے خوفناک بو آتی تھی.
تمام لوگ اس سے پرہیز کرتے تھے.
ہم لوگ دسمبر میں کشتی میں سوار ہوئے’
ہم میں سے کوئی شخص اس لڑکے کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا تھا’
ہم نے اسے روکنے کی کوشش کی
لیکن وہ رونا شروع ہو گیا’
ایجنٹ کے پاس وقت کم تھا
چنانچہ اس نے اسے ٹھڈا مار کر کشتی میں پھینک دیا.
کشتی جب یونان کی حدود میں داخل ہوئی،
تو کوسٹ گارڈ ایکٹو تھے۔
یونان کو شاید ہماری کشتی کی مخبری ہو گئی تھی.
ایجنٹ نے مختلف راستوں سے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کی،
مگر ہر راستے پر کوسٹ گارڈ تھے.
اس دوران
اس لڑکے کی طبیعت خراب ہو گئی.
وہ الٹیاں کرنے لگا.
ہم نے ایجنٹ سے احتجاج شروع کر دیا.
ایجنٹ ٹینشن میں تھا’
اسے غصہ آ گیا’
اس نے دو لڑکوں کی مدد لی،
اور
اس گندے لڑکے کو اٹھا کر
یخ ٹھنڈے پانی میں پھینک دیا.
وہ بے چارہ ڈبکیاں کھانے لگا.
ہم آگے نکل گئے.
ہم ابھی آدھ کلومیٹر آگے گئے تھے
کہ ہم پر فائرنگ شروع ہو گئی’
ایجنٹ نے کشتی موڑنے کی کوشش کی۔
کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی،
اور وہ پانی میں الٹ گئی.
ہم سب پانی میں ڈبکیاں کھانے لگے’
میں نے خود کو سردی’ پانی اور خوف کے حوالے کر دیا.
جب میری آنکھ کھلی،
تو میں اسپتال میں تھا’
مجھے هسپتال کے عملے نے بتایا
“کشتی میں سوار تمام لوگ مر چکے ہیں.صرف دو لوگ بچے ہیں”
میں نے دوسرے زنده شخص کے بارے میں پوچھا.
ڈاکٹر نے میرے بیڈ کا پردہ ہٹا دیا،
دوسرے بیڈ پر وہی لڑکا لیٹا تھا،
جسے ہم نے اپنے ہاتھوں سے سمندر میں پھینکا تھا،
سمندر کی لہریں اسے دھکیل کر ساحل تک لے آئی تھیں۔
مجھے کوسٹ گارڈز نے بچا لیا تھا.
جب کہ
باقی لوگ گولیوں کا نشانہ بن گئے،
یا پھر
سردی سے ٹھٹھر کر مر چکے تھے.
میں پندرہ دن اسپتال رہا.
میں اس دوران یہ سوچتا رہا:
“میں کیوں بچ گیا”؟
مجھے کوئی جواب نہیں سوجھتا تھا.
میں جب اسپتال سے ڈسچارج ہو رہا تھا،
مجھے اس وقت یاد آیا.
میں نے اس لڑکے کو لائف جیکٹ پہنائی تھی.
ایجنٹ جب اسے پانی میں پھینکنے کے لیے آ رہا تھا،
تو میں نے فوراً
باکس سے جیکٹ نکال کر اسے پہنا دی تھی.
یہ وہ نیکی تھی
جس نے مجھے بچا لیا.
مجھے جوں ہی یہ نیکی یاد آئی،
مجھے چھ ماہ کا وہ سارا زمانہ یاد آ گیا،
جو ہم نے اس لڑکے کے ساتھ گزارہ تھا.
ہم نہ صرف ترکی میں اس کی وجہ سے بچتے رہے تھے،
بلکہ وہ لڑکا
جب تک ہماری کشتی میں موجود رہا،
ہم سب لوگ
کوسٹ گارڈز سے بھی محفوظ رہے،
یخ پانی سے بھی،
اور موت سے بھی.
ہم نے جوں ہی اسے کشتی سے دھکا دیا،
موت نے ہم پر اٹیک کر دیا.
میں نے پولیس سے درخواست کی:
“میں اپنے ساتھی سے ملنا چاہتا ہوں”
پولیس اہلکاروں نے بتایا:
“وہ پولیس وین میں تمہارا انتظار کر رہا ہے”
میں گاڑی میں سوار ہوا،
اور جاتے ہی اسے گلے سے لگا لیا۔
مجھے اس وقت اس کے جسم سے کسی قسم کی کوئی بو نہیں آ رہی تھی.
تب مجھے معلوم ہوا
میرے ساتھیوں کو دراصل
اس کے جسم سے اپنی موت کی بو آتی تھی.
یہ ان لوگوں کی موت تھی،
جو انھیں اس سے الگ کرنا چاہتی تھی.
اور وہ جوں ہی الگ ہوئے،
سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔