back to top

 نیوز پر چلنے والی اس خبر نے من کا برہما شانت کر دیا۔

دلِ زار نے ہجومِ بلا کے فسانے تو بہت کہہ لیے ، اب کچھ جامِ فرحت فزا کی بات ہو جائے؟

یہ فیصل آباد کی ایک دکان کا منظر ہے ۔ دکان اتنی بڑی نہیں مگر تاجر کا دل کشادہ ہے۔ اعلان عام ہے:

“عید کے لیے بچوں کے کپڑے رکھے ہیں ، جو خرید سکتا ہے خرید لے جو خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ مفت میں لے جائے اور اپنے بچوں کی عید میں خوشیاں بھرلے۔”

ایک غریب سا ، حالات کا مارا بچہ ایک سوٹ اٹھاتا ہے اور اس کے وجود میں پھوٹتے جلترنگ میں یہاں میلوں دور بیٹھ کر محسوس کر سکتا ہوں۔ اس ننھے وجود پر اس لمحے جو خوشی اتری ، کاش بیان کی جا سکتی ۔

ایک ماں کرسی پر بیٹھی ہے، اس کی ننھی سی بیٹی جا کر ایک فراک پسند کرتی ہے۔ فراک ہاتھ میں آتے ہی یہ ننھا وجود خوشی سے گویا تتلی بن جاتا ہے۔ تتلی اڑتی ہوئی ماں کے پاس آتی ہے۔ کسی کو کیا معلوم کتنے موسم تتلی نے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹا ہو۔ کون جانے اس دوران ماں پر کیا قیامتیں بیت چکی ہوں ۔

ذرا سنیے یہ بیٹی کیا کہہ رہی ہے :

’’میں نے اپنی مما سے کہا تھا کہ مجھے نا ، مجھے نا ، فراک لے کر دیں ، مما نے کہا میرے پاس پیسے نہیں ہیں‘‘۔

کیا آپ نے غور کیا بیٹی نے یہ سب مما سے کیوں کہا؟

بابا سے کیوں نہ کہا؟

شاید وہ یتیم ہو ۔

نوجوان تاجر اسے فراک تھماتا ہے اور بچی کہتی ہے:

“اللہ انہیں خوش رکھے.”

تاجر تو یہاں بہت ہوں گے اور اس ماہ مقدس میں دولت بھی کمائیں گے لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا کوئی اس تاجر سا بھی ہو گا؟

معلوم نہیں یہ تاجر کون ہے ۔ لیکن یہ ہمارا ہیرو ہے۔

ہمارے معاشرے کا حقیقی ہیرو۔

یہ ایک اور منظر ہے۔رمضان المبارک کا چاند طلوع ہو چکا ہے ۔ شام ڈھل رہی ہے ۔ راولپنڈی سیٹلائٹ ٹائون میں ایک سڑک کنارے میں گاڑی میں بیٹھا ہوں ۔ دائیں طرف ایک گھر ہے ۔ ایک بوڑھی خاتون آتی ہے ، ڈور بیل بجاتی ہے ۔ دروازہ کھلتا ہے اور خاموشی سے اس عورت کو سامان پکڑا دیا جاتا ہے ۔ آٹے کا ایک بڑا سا توڑا ، چینی کا قریبا دس کلو کا پیکٹ ۔ گھی کا ایک بڑا ڈبہ ، جام شیریں کا ایک فیملی پیک، کچھ اور پیکٹ جن میں معلوم نہیں کیا ہے ۔ دینے والا کوئی احسان نہیں جتاتا ۔ خاموشی سے چیزیں بڑھیا کے حوالے کر کے دروازہ بند کر دیتا ہے۔ پھر ایک اور عورت آتی ہے اور یہی عمل دہرایا جاتا ہے ۔ پھر ایک اور ، پھر ایک اور ، پھر ایک اور۔۔۔میں نہیں جانتا یہ کس کا گھر ہے۔ کچھ خبر نہیں دینے والا کون ہے لیکن یہ جو کوئی بھی ہے یہ ہمارا ہیرو ہے۔ ہمارا حقیقی ہیرو۔

ایک کہانی اور سن لیجیے۔ میری اہلیہ گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔ ان کے کالج میں ایک کام کرنی والی آیا ہیں ۔ یہ ان کی کہانی ہے ۔ ان کا خاوند فوت ہو چکا ہے۔ اپنی بیٹی کو انہوں نے مشکلوں سے میٹرک کرایا ۔ ٹیوشن کے اخراجات برداشت نہ کر سکیں یوں نمبر کچھ کم آئے اور میڈیکل میں داخلہ نہ ہو سکا۔ محلے میں ایک خاتون کو پتا چلا کہ ایک بیٹی کا خواب ٹوٹ گیا ہے۔ایک شام وہ خاتون ان کے گھر گئیں اور کہا یہ بیٹی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے تو یہ بیٹی ڈاکٹر ہی بنے گی ۔ آپ اس کا پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخلہ کروائیں اس کا سارا خرچ ہم دیں گے۔ ماں کالج میں جھاڑو لگاتی رہیں اور بیٹی میڈیکل کے تیسرے سال میں پہنچ گئیں۔

ایک روز اہلیہ نے بتایا ، وہ بچی میڈیکل کے تیسرے سال میں تھی کہ اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے والی خاتون کا انتقال ہو گیا ۔ خاتون کی بلندی درجات کی دعا کے بعد پریشانی کے عالم میں میری زبان پر پہلا سوال یہی آیا کہ اب بچی کی تعلیم کا کیا ہو گا ؟ انہوں نے بتایا : تعلیم جاری رہے گی ۔ اس خاتون کی تدفین کے بعد اس کے دونوں بیٹے اس عورت کے گھر آئے اور کہا ہمیں معلوم ہے ہماری ماں آپ کی بیٹی کے تعلیمی اخراجات ادا کر رہی تھیں ۔ آپ نے بالکل گھبرانا نہیں ہے ۔ جو کام ہماری ماں نے شروع کیا تھا ہم اس کام کو رکنے نہیں گے۔ آپ کی بیٹی کے اخراجات پہلے کی طرح آپ تک پہنچتے رہیں گے ۔ آپ کی بیٹی ، اللہ نے چاہا تو ، ضرور ڈاکٹر بنیں گی ۔۔۔۔یہ خاتون کون تھیں؟ ان کے بیٹوں کا نام کیا ہے ؟ وہ کہاں ہوتے ہیں؟ وہ کیا کام کرتے ہیں ؟ مجھے کچھ معلوم نہیں لیکن میں اتنا جانتا ہوں یہ عظیم خاتون اور اس کے یہ عظیم بیٹے ہمارے معاشرے کے ہیرو ہیں۔ ہمارے حقیقی ہیرو۔

برسوں پہلے مسجد عمر میں نماز فجر کے بعد مرحوم حضرت مولانا شہاب الدین نے درس قرآن دیتے ہوئے پوچھا : آپ میں سے کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اونگھتے ہوئے مجھے ایک جھٹکا سا لگا ، حضرت جی کو کیا ہو گیا ہے؟ بھلا اللہ کو قرض کی کیا حاجت ؟ میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا ۔ تب انہوں نے وہ آیت پڑھی: ’’ من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا ۔ کون ہے وہ جو قرض دے اللہ کو، قرض حسنہ ؟ اس آیت کو ہم سمجھ ہی نہیں پائے۔ جنہوں نے سمجھ لیا فلاح پا گئے۔ نجات پا گئے۔ یہی اس معاشرے کے ہیرو ہیں۔ انہی کے دم سے معاشرے کا وجود باقی ہے۔ انہی کی وجہ سے سماج میں خیر کا جذبہ زندہ ہے۔انہی کے دم سے معاشرہ قائم ہے۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ مستعار لوں تو یہی لوگ زمین کا نمک ہیں۔

ایسے بے شمار ہیرو ہمارے ارد گرد بکھرے پڑے ہیں ۔ انہیں پہچانیے ۔ان کی قدر کیجیے ۔ان سے سیکھیے ۔ یہ جس مخلوق کو ہم نے ہیرو بنا رکھا ہے یہ رانگ نمبر ہے ۔ یہ آٹے کی ایک بوری ایک دفعہ دے کر تصویر کاآزار ساری عمر کے لیے غریب کی چوکھٹ پر لٹکا جاتی ہے ۔ قومی خزانے سے ایک مرلے کا کام کراتی ہے اور چار کنال کے بورڈز اپنی تعریف میں لگا دیتی ہے۔ معاشرہ اگر اپنی تعمیر چاہتا ہے تو اسے اپنے حقیقی ہیروز کی قدر کرنا ہو گی اور رانگ نمبرز کو ان کے مقام پر رکھنا ہو گا۔

ماہ مقدس کا نصف بیت گیا. سوال بہت سادہ ہے.

من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا؟

یہ تحریر کاپی پیسٹ ہے سالار سکندر صاحب کی وال سے لی ایک قرض ہے خدارا چکا دیجیئے

آئیں عہد کریں اپنے اردگرد سے کسی ایک کو ہم عید کی خوشیاں دیں گے۔

امیر ہونے کی دعا ؟

سورہ التوبۃ آیت نمبر 75 وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰٮنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾ ترجمہ: اور انہی میں...

قاتل سپاہی

قاتل سپاھی دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے ہیں ' جون کا مہینہ ہے ' سمن آباد میں ایک ڈاکیہ پسینے میں شرابور بوکھلایا بوکھلایا سا...

Hadith: praying when sex

اس ہفتے کے ٹاپ 5 موضوعات

دعا – ‎اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ

‎اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ...

قرآنی ‏معلومات ‏سے ‏متعلق ‏ایک ‏سو ‏سوالات ‏

قرآنی ‏معلومات ‏سے ‏متعلق ‏ایک ‏سو ‏سوالات ‏

Searching for Happiness?

Happiness is the only goal on earth...

چھوٹے چھوٹے واقعات – بہترین سبق

امام احمدبن حنبل نہر پر وضو فرما رہے تھے...

کرایہ دار اور انکی فیملی

وہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ دفتر سے...

Hadith: What to do when entering mosque

Sahih Al Bukhari - Book of Prayers (Salat) ...

اپنے کو اچھا سمجھتے ہوئے دوسرے کو حقیر گمان کرنا

 تکبر  افضال احمد ملی ، جامع مسجد پمپر کھیڑ چالیسگاؤں اپنے کو...

انسان کی تخلیق کا عظیم الشان نظام

"اللہ تعالی وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہیں...

پرس چوری ہو گیا

ایک عورت کا پرس چوری ہو گیا، اسکے پرس...

Hadith: Giving land in charity

Sahih Al Bukhari - Book of Wills And Testaments...

متعلقہ مضامین

میں تمہیں بڑی ھی کام میں آنے والی نصیحتیں کرونگی

​​ ایک شخص نے چڑیا پکڑنے کےلئے جال بچھایا.. اتفاق سےایک چڑیا اس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑلیا.. چڑیا نے اس سے...

تھپکی کی طاقت

وہ ایک کند ذہن بچہ تھا۔ روز سکول آتا لیکن اسے کبھی سبق یاد نہیں ہوتا تھا۔استاتذہ سے روز ڈانٹ ڈپٹ اور مار کھانا اس...

سب سے زیادہ خوشی آپ کو کس چیز میں محسوس ہوئی

حقیقی خوشی عبدالغفار سلفی ، بنارس        ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں ریڈیو اناؤنسر نے اپنے مہمان سے جو ایک کروڑ پتی شخص تھا...

بات معمولی سی تھی

" بات معمولی سی تھی ، لیکن اس نے تکرار کا رُخ اختیار کر لیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی میں نے ایک دکان...

پیزا بنانا چاہ رہی تھیں

خاتون خانہ پریشان تھیں۔ رات کو گھر میں دعوت تھی۔ پیزا بنانا چاہ رہی تھیں۔ سارا سامان لے آئی تھیں لیکن مشرومز لانا بھول...

آج ایک شادی پر جانا ھوا

آج ایک شادی پر جانا ھوا،ھال کے ایک کونے پر نظر گئی تو ایک جان پہچان والے شخص پر نظر پڑی...جو اکیلا ھی بیٹھا...