ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے.. اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ھے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ھے.. مزید کسی ٹرائی کے امکانات زیرو ھیں.. آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ھوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ھے تو بتا دے
ابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی ھے.. بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ھے.. یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ھیں تا آنکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ھیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باھر جانا ھے اور بس !! اور کوئی آپشن نہیں ھے.. ایک دن آتا ھے کہ بچہ ھاتھ سےنکلے ھوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ھے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ھے !!!
ھماری اولاد ھمارے یقین میں سے اپنا حصہ پاتی ھے.. اگر ھم خود یقین اور عمل سے تہی دست ھونگے تو اولاد کو کیا دیں گے..؟
بچوں کو کہانیاں نہ سنایئے بلکہ عمل کر کے دکھایئے.. یقین کریں وہ جتنا آپ پر اعتماد کرتے ھیں دنیا کے کسی کتابی ھیرو پہ نہیں کرتے.. اولاد کی خرابی میں خود ھماری اپنی کوتاھیوں کا ھاتھ ھوتا ھے
اولاد چونکہ ھمیں اسوہ سمجھتی ھے لہذا ھمارے کردار کا انتہائی دلچسپی سے جائزہ لیتی ھے.. ھم جوں جوں دوستوں کے ساتھ فراڈ کرتے ھیں , جھوٹے وعدے کرتے ھیں , ان کا مذاق اڑاتے ھیں , کسی کے لئے ذلت آمیز رویہ اختیار کرتے ھیں , بیوی پر ظلم کرتے ھیں , اولاد کی نظروں سے گرتے جاتے ھیں اور ایک وقت آتا ھے کہ ان کی نظر میں ھماری وقعت کم تر ہوتی جاتی ہے۔
(ہو سکتا ہے تصویر میں پرندے ابابیل نہ ہوں)