انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب اُس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ اب بڑے پُرسکون انداز میں زندگی بسر کرے اور وہ ایسے جھمیلوں میں نہ رہے، جس طرح کے جھمیلوں میں اُس نے اپنی گزشتہ زندگی بسر کی ہوئی ہوتی ہے اور یہ آرزو بڑی شدت سے ہوتی ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ دوستی لگا لیتے ہیں، وہ بڑے مزے میں رہتے ہیں اور وہ بڑے چالاک لوگ ہوتے ہیں۔ ہم کو اُنہوں نے بتایا ہوتا ہے کہ ہم ادھر اپنے دوستوں کے ساتھ دوستی رکھیں اور وہ خود بیچ میں سے نکل کر اللہ کو دوست بنا لیتے ہیں۔ اُن کے اوپر کوئی تکلیف، کوئی بوجھ اور کوئی پہاڑ نہیں گرتا۔ سارے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے میرے اور آپ کے ہیں، لیکن ان لوگوں کو ایک ایسا سہارا ہوتا ہے، ایک ایسی مدد حاصل ہوتی ہے کہ اُنہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔
میں نے یہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ہمارے گھر میں دھوپ سینکتے ہوئے میں ایک چڑیا کو دیکھا کرتا ہوں، جو بڑی دیر سے ہمارے گھر میں رہتی ہے اور غالباً یہ اُس چڑیا کی یا تو بیٹی ہے، یا نواسی ہے جو بہت ہی دیر سے ہمارے مکان کی چھت کے ایک کونے میں رہتی ہے۔ ہمارا مکان ویسے تو بڑا اچھا ہے، اس کی “آروی” کی چھتیں ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی کھدرا ایسا رہ ہی جاتا ہے، جو ایسے مکینوں کو بھی جگہ فراہم کر دیتا ہے۔ یہ چڑیا بڑے شوق، بڑے سبھاؤ اور بڑے ہی مانوس انداز میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ ہمارے کمرے کے اندر بھی اور فرش پر بھی چلی آتی ہے۔ کل ایک فاختہ آئی جو ٹیلیفون کی تار پر بیٹھی تھی اور یہ چڑیا اُڑ کر اُس کے پاس گئی، اُس وقت میں دھوپ سینک (تاپ) رہا تھا۔ اُس چڑیا نے فاختہ سے پوچھا کہ ” آپا یہ جو لوگ ہوتے ہیں انسان، جن کے ساتھ میں رہتی ہوں، یہ اتنے بے چین کیوں ہوتے ہیں؟یہ بھاگے کیوں پھرتے ہیں؟ دروازے کیوں بند کرتے اور کھولتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟” فاختہ نے کہا کہ “میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم جانوروں کا ایک اللہ ہوتا ہے، ان کا کوئی اللہ نہیں ہے اور ہمیں یہ چاہئے کہ ہم مل کر کوئی دعا کریں کہ ان کو بھی ایک اللہ مل جائے۔ اس طرح انہیں آسانی ہو جائے گی، کیونکہ اگر ان کو اللہ نہ مل سکا، تو مشکل میں زندگی بسر کریں گے۔”
اب معلوم نہیں میری چڑیا نے اُس کی بات مانی یا نہیں، لیکن وہ بڑی دیر تک گفت وشنید کرتی رہیں اور میں بیٹھا اپنے تصور کے زور پر یہ دیکھتا رہا کہ ان کے درمیان گفتگو کا شاید کچھ ایسا ہی سلسلہ جاری ہے۔ تو ہم کس وجھ سے، ہمارا اتنا بڑا قصور بھی نہیں ہے، ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے “بابوں” کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا “اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔” میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ “اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں” کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!!