روم کے بادشاہ ہرقل (یا ہرکولیس) کو نبی کریمﷺ نے خط بھیجا جس میں دین کی دعوت دی گئی۔ رومن امپائر اس وقت دنیا کی طاقتور ترین حکومت ہوا کرتی تھی اور اس کا بادشاہ جاہ و جلال کا پیکر ہوا کرتا تھا۔
ہرقل کو جب یہ خط ملا تو اس نے حکم دیا کہ اگر کوئی عرب کا باشندہ ملک میں ہے تو اسے لایا جائے۔ اس وقت اتفاق سے ابوسفیان اپنے لوگوں کے ہمراہ تجارتی دورے پر وہاں موجود تھے، چنانچہ انہیں بادشاہ کے دربار میں بلا لیا گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب ابوسفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور غالباً حال ہی میں نبی ﷺ کے ساتھ قریش مکہ کا معاہدہ بھی ہوچکا تھا۔
جب وہ سب دربار میں پہنچے تو ہرقل نے سوال کیا:
تم میں سے کون شخص محمد (ﷺ) کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟
ابوسفیان: میں اس (ﷺ) کا سب سے قریبی عزیز ہوں۔
ہرقل: اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟
ابوسفیان: وہ اونچے عالی نسبت والے ہیں۔
ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے ایسی بات (یعنی نبوت کا دعوی) کیا تھا؟
ابوسفیان: نہیں
ہرقل: اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟
ابوسفیان: نہیں
ہرقل: اس کی پیروی کرنے والے طاقتور ہیں یا کمزور؟
ابوسفیان: کمزور
ہرقل: اس کے ماننے والوں میں سے کوئی واپس پلٹا ہے؟
ابوسفیان: نہیں، سب کے سب قائم ہیں
ہرقل: دعوی نبوت سے قبل اس نے کبھی جھوٹ بولا تھا؟
ابوسفیان: ہرگز نہیں۔ اب ہمارا معاہدہ ہوا ہے، معلوم نہیں اس کا کیا کرے گا۔
ہرقل: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی ہوئی، اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟
ابوسفیان: کبھی ہم جیت جاتے ہیں اور کبھی وہ۔
ہرقل: وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے؟
ابوسفیان: وہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، اپنے باپ دادا کی شرک کی باتیں چھوڑ دو، نماز پڑھو، سچ بولو، پرہیزگاری اختیار کرو اور صلہ رحمی کرو۔
ہرقل نے کہا:
میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا، تم نے کہا ہم میں عالی نسب ہے، پیغمبر ہمیشہ عالی نسب ہی بھیجے جاتے ہیں۔
تم نے کہا کہ اس کے خاندان میں اس سے پہلے کسی اور نے نبوت کا دعوی نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ وہ ان کی تقلید کررہا ہے۔
تم نے کہا کہ اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ نہیں گزرا۔ اگر گزرا ہوتا تو میں کہہ دیتا کہ وہ اپنی بادشاہت حاصل کرنے کیلئے یہ دعوی کررہا ہے۔
تم نے کہا کہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ جو شخص آدمیوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولتا، وہ اللہ کے بارے جھوٹی بات کیسے گھڑ سکتا ہے۔
تم نے کہا کہ اس کے ساتھ زیادہ تر کمزور لوگ ہیں۔ یہی لوگ تو پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں۔
تم نے کہا کہ اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں، ایمان کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔
تم نے کہا کہ اس کا ماننے والا کوئی بھی مرتد نہیں ہوا۔ ایمان والوں کی یہی خاصیت ہوتی ہے۔
تم نے کہا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیتا ہے، سچ اور پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہے۔
لہذا اگر یہ باتیں سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک ہوگا۔ میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر آنے والا ہے، مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ تم سے ہوگا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو خود اس کے پاؤں دھوتا۔
یہ ہے ہمارے نبی ﷺ کی شخصیت کی خوبصورتی کہ آپ ﷺ کی خصوصیات سن کر ایک طاقتور ترین بادشاہ بھی آپ ﷺ کی سچائی کی گواہی دینے پر مجبور ہوگیا۔
اپنے اردگرد موجود مذہبی لبادوں میں چھپے منافقین پر نظر دوڑائیں اور سوچیں کہ ان کا کردار اور اعمال ہمارے دین سے کتنی مطابقت رکھتے ہیں؟