کہتے ہیں ایک راجا تھا اسکے پاس بہت عمدہ قسم کے ھیرے تھے ایک دن اسنے انُ ھیروں میں کچھ بہت عمدہ نقلی ھیرے ملا دیے اور کہا جو اس میں سے اصلی اور نقلی ھیرے الگ کردے گا تو اصلی ھیرے بھی اسکو انعام میں دے دوں گا ۔بڑے بڑے جوھری ناکام ہوگے وہ اصلی اور نقلی کو الگ نہ کرُسکے اور ہار مان لی۔ اتنے میں ایک نابینا شخص آیا اور اسنے دعوا کیا میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ لوگ ہسنے لگے تم اندھے ہو اور یہ کرلو گے۔ یہاں ایک سے ایک ماھر یہ کام نہیں کر سکا۔ راجا نے اسکو اجازت دے دی اور اسنے کہا وہ ان ھیروں کو کچھ دیر کے لیے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہے اجازت مل گئی۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آیا اور اسنے اصلی اور نقلی ھیرے الگ کردے۔ بادشاہ اور درباری بہت حیران ہوے پوچھا یہ تم نے کیسے کیا اسنے کہا بہت آسانی سے۔ میں نے ان ھیروں کو دھوپ میں رکھا جو نقلی تھے وہ دھوپ کی شدت برداشت نہ کرُسکے وہ گرم ہوگئے اور جو اصی تھے ان کو کچھ نہ ہوا ۔
مورل آف دا اسٹوری یہ ہے
ھم سب دیکھنے میں ھیرے ہی ہوتے شناخت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کون ھیرا ہے کون کانچ کا ٹکڑا۔ مگر جب انکو غصہ کی تپش پڑتی ہے تو وہ گرمی سے پھٹ پڑتے ہیں اور انکی زبان انکی اصلیت بیان کرُدیتی ہے ۔
اگر تو اصل ھیرا بننا ہے تو غصہ پر قابو پانا سیکھیئے ۔
غصہ خود کے لیے بھی نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ یوں کہوں دوسروں کے لئے کم اپنے لیے ذیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ مختلف بیماریوں کی وجہ غصہ آتا ہی ہے تو غصہ کم کیجئے۔