ایک مرتبہ میں اپنے والد گرامی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران ایک بوڑھی عورت آئی اور اس نے میرے والد صاحب سے ایک مسئلہ پوچھا:
ذرا توجہ سے سنئے گا!
یہ مسئلہ پوچھا کہ میں روئی کاتتی ہوں۔ میں ایک رات چھت کے اوپر بیٹھ کر روئی کات رہی تھی۔حکومتِ وقت کی پولیسکی پولیس کا داروغہ گلی میں سے گزرا، اس ک ساتھ روشنی کا بڑا انتظام تھا، وہ وہاں کسی سے بات کرنے کے لیے رک گیا، جب روشنی بہت زیادہ ہو گئی اور مجھے روئی اچھی طرح نظر آنے لگی تومیں نے سوچا کہ میں ذرا جلدی کات لوں۔ چنانچہ میں نے جلدی جلدی روئی کاتی۔ جب وہ داروغہ ابنِ طاہر چلا گیا تو بعد میں مجھے خیال آیا کہ ان کا پیسہ تو مشتبہ قسم کا ہوتا ہے اور میں نے اس کیروشنی سے فائدہ اٹھایا ہے، اب یہ روئی میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟
امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا: تم اس ساری روئی کو صدقہ کر دو، اللہ تمہیں اور رزق عطا فرما دیں گے۔
حضرت عبداللہؒ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا جواب ہوا۔ جواب تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جتنی مقدار اس روشنی میں کاتی اتنا صدقہ کرو، لیکن ابا جی نے فرمایا کہ ساری روئی صدقہ کر دو۔۔۔
اس کے بعد وہ عورت چلی گئی۔کہتے ہیں کہ دو چار دن بعد پھر وہی بوڑھی عورت آئی اور کہا: جی میں نے امام صاحب سے مسئلہ پوچھنا ہے۔ چنانچہ وہ امام صاحب کے پاس جا کر مسئلہ پوچھنے لگی کہ میں رات کو چراغ کی روشنی میں روئی کاتتی ہوں تو کبھی کبھی چراغ کا تیل ختم ہو جاتا ہے، تو چاند کی روشنی میں کاتنے بیٹھ جاتی ہوں،چراغ کی روشنی میں روئی صاف نظر آتی ہے اور چاند کی روشنی میں صاف نظر نہیں آتی۔ تو اب بتائیں کہ جب میں گاہک کو روئی بیچوں تو کیا مجھے بتانا پڑے گا کہ یہ چراغ کی روشنی میں کاتی گئی ہے یا چاند کی روشنی میں کاتی گئی ہے؟
امام صاحب نے فرمایا، ہاں تمہیں بتانا پڑے گا۔ اس کے بعد وہ دعا دے کر چلی گئی۔فرماتے ہیں کہ جب وہ چلی گئی تو امام صاحب بھی اس کا تقویٰ دیکھ کر حیران ہوئے، اور مجھے فرمایا کہ اس عورت کے پیچھے جاؤ اور دیکھو تو سہی کہ یہ کس گھر کی عورت ہے۔۔۔
حضرت عبداللہؒ فرماتے ہیں کہ جب میں پیچھے گیا تو وہ بشر حافیؒ کے گھر میں داخل ہوئی، پتہ چلا کہ یہ بشر حافیؒ کی بہن تھی جس کو اللہ نے اتنی تقویٰ بھری زندگی عطا فرمائی ہوئی تھی۔۔۔ اس وقت کی عورتیں بھی حرام اور مشتبہ چیزوں سے اتنا بچتی تھیں۔ قیامت کے دن تو یہ عورتیں بھی ہم سے آگے بڑھ جائیں گی۔